Thursday, June 25, 2015

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو۔۔
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو۔۔
یہ خواب ہے، خوشبو ہے، کہ جھونکا ہے، کہ پل ہے،
یہ دھند ہے، بادل ہے، کہ سایہ ہے کہ تم ہو۔۔
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہے لرزاں،
میں ہوں کہ کوئی اور ہے، دنیا ہے کہ تم ہو۔۔
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری،
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو۔۔
یہ عمرِ گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں،
ہر سانس میں مجھ کو یہ لگتا ہے کہ تم ہو۔۔
ہر بزم میں موضوعِ سخن دل زدگاں کا،
اب کون ہے؟ شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو۔۔
اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں،
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو۔۔
وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے،
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو۔۔
آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل،
یہ رسم بھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو۔۔
اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی،
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو۔۔

No comments:

Post a Comment