تم یہی سمجھتے ہو
اس زمیں پہ ہر جانب
بے حیات چہروں کا
اک وسیع جنگل ہے
بے حیات چہروں کا
اک وسیع جنگل ہے
تم یہی سمجھتے ہو
ماہتاب کی چاندی، آفتاب کا سونا
اک تمھاری مرضی سے دوسروں میں بٹتا ہے
زندگی کا ہر رستہ
بس تمھارے محلوں کے بیچ سے گزرتا ہے
تم یہی سمجھتے ہو
اک تمھاری مرضی سے دوسروں میں بٹتا ہے
زندگی کا ہر رستہ
بس تمھارے محلوں کے بیچ سے گزرتا ہے
تم یہی سمجھتے ہو
تم اگر نہ چاہو تو
ان گنت چراغوں کو روشنی نہیں ملتی
بے شمار لوگوں کو زندگی نہیں ملتی
منجمد خیالوں کو شعلگی نہیں ملتی
عہدِ بے یقینی کو پختگی نہیں ملتی
ڈھونڈتے رہیں برسوں پر خوشی نہیں ملتی
بے شمار لوگوں کو زندگی نہیں ملتی
منجمد خیالوں کو شعلگی نہیں ملتی
عہدِ بے یقینی کو پختگی نہیں ملتی
ڈھونڈتے رہیں برسوں پر خوشی نہیں ملتی
تم یہی سمجھتے ہو
کارواں تمھارے ہیں، منزلیں تمھاری ہیں
رونقیں تمھاری ہیں، راحتیں تمھاری ہیں
کشتگانِ عسُرت کی آبرو کے مالک ہو
آئنوں کے مالک ہو، صورتوں کے مالک ہو
عصمتوں کے مالک ہو، قسمتوں کے مالک ہو
رونقیں تمھاری ہیں، راحتیں تمھاری ہیں
کشتگانِ عسُرت کی آبرو کے مالک ہو
آئنوں کے مالک ہو، صورتوں کے مالک ہو
عصمتوں کے مالک ہو، قسمتوں کے مالک ہو
تم یہی سمجھتے ہو
یہ غلام زادے تو ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں
بے بسی کے سانچے ہیں
دھول رہگذاروں کی، کانچ کے کھلونے ہیں
حاجتوں کے پیکر ہیں
بھوک کے پیمبر ہیں
پر یہ تلخ سچائی تم کبھی نہیں سمجھے
بے بسی کے سانچے ہیں
دھول رہگذاروں کی، کانچ کے کھلونے ہیں
حاجتوں کے پیکر ہیں
بھوک کے پیمبر ہیں
پر یہ تلخ سچائی تم کبھی نہیں سمجھے
یہ غلام زادے بھی
ہڈیوں کے ڈھانچے بھی، بے بسی کے سانچے بھی
اک یقین رکھتے ہیں، اک زبان رکھتے ہیں
دل کے بند کمروں میں خواب سر پٹختے ہیں
بے تکان پیروں میں آبلے چٹختے ہیں
نم شناس آنکھوں میں خواب جھلملاتے ہیں
اک یقین رکھتے ہیں، اک زبان رکھتے ہیں
دل کے بند کمروں میں خواب سر پٹختے ہیں
بے تکان پیروں میں آبلے چٹختے ہیں
نم شناس آنکھوں میں خواب جھلملاتے ہیں
استخوانی ماتھوں کے برف زار کے پیچھے
ذہن جگمگاتے ہیں .. ... ....
ذہن جگمگاتے ہیں .. ... ....
No comments:
Post a Comment