Saturday, June 27, 2015

تم یہی سمجھتے ہو

 تم یہی سمجھتے ہو
اس زمیں پہ ہر جانب
بے حیات چہروں کا
اک وسیع جنگل ہے
تم یہی سمجھتے ہو
ماہتاب کی چاندی، آفتاب کا سونا
اک تمھاری مرضی سے دوسروں میں بٹتا ہے
زندگی کا ہر رستہ
بس تمھارے محلوں کے بیچ سے گزرتا ہے
تم یہی سمجھتے ہو
تم اگر نہ چاہو تو
ان گنت چراغوں کو روشنی نہیں ملتی
بے شمار لوگوں کو زندگی نہیں ملتی
منجمد خیالوں کو شعلگی نہیں ملتی
عہدِ بے یقینی کو پختگی نہیں ملتی
ڈھونڈتے رہیں برسوں پر خوشی نہیں ملتی
تم یہی سمجھتے ہو
کارواں تمھارے ہیں، منزلیں تمھاری ہیں
رونقیں تمھاری ہیں، راحتیں تمھاری ہیں
کشتگانِ عسُرت کی آبرو کے مالک ہو
آئنوں کے مالک ہو، صورتوں کے مالک ہو
عصمتوں کے مالک ہو، قسمتوں کے مالک ہو
تم یہی سمجھتے ہو
یہ غلام زادے تو ہڈیوں کے ڈھانچے ہیں
بے بسی کے سانچے ہیں
دھول رہگذاروں کی، کانچ کے کھلونے ہیں
حاجتوں کے پیکر ہیں
بھوک کے پیمبر ہیں
پر یہ تلخ سچائی تم کبھی نہیں سمجھے
یہ غلام زادے بھی
ہڈیوں کے ڈھانچے بھی، بے بسی کے سانچے بھی
اک یقین رکھتے ہیں، اک زبان رکھتے ہیں
دل کے بند کمروں میں خواب سر پٹختے ہیں
بے تکان پیروں میں آبلے چٹختے ہیں
نم شناس آنکھوں میں خواب جھلملاتے ہیں
استخوانی ماتھوں کے برف زار کے پیچھے
ذہن جگمگاتے ہیں .. ... ....

No comments:

Post a Comment