Sunday, June 7, 2015

تذبذب

کیا خبر کے مل جائے 
کچھ خبر حوادث کی
کیا پتا کہ ہو جائے 
لا پتا مسلمانی
ایسا ہو بھی سکتا ہے 
کچھ بھی ہو نا سکتا ہو 
اور جو ہوا ہے وہ 
ہو کے بھی ہوا نا ہو 
بیپناہ تذبذب ہے
سنسنی بلا کی ہے
بات کچھ نہیں لیکن 
داستاں غضب کی ہے 
خیر کیا کہا جائے 
اس عجیب قصے
کو
حیرتوں کے قلزم میں 
وحشتوں کے حصے کو 
عمر ناتواں ساری 
خواہشات لا حاصل 
دہشتوں کا ما حاصل
بے حسی کی بیباکی
لا مکاں مکاں سازی
جان و دل کی بربادی 
بے ستوں کی بستی میں 
چاہتوں کا خمیازہ
ہر طرف سرابوں کی 
صرف شعبدہ بازی
خیر کیا کہا جائے 
سانس سانس دھڑکا ہے 
بے ستوں کی بستی میں 
ہر نظام ڈر کا ھے
گھر میں ہی نمٹ جائے 
معاملہ جو گھر کا 
اس لئے یہ سوچا ہے 
آج ایسا کرتے ہیں 
چشم و لب کو سی کر ہم 
زندگی کی بستی میں 
سیر کو نکلتے ہیں

سدرہ افضل

No comments:

Post a Comment