کیا خبر کے مل جائے
کچھ خبر حوادث کی
کیا پتا کہ ہو جائے
لا پتا مسلمانی
ایسا ہو بھی سکتا ہے
کچھ بھی ہو نا سکتا ہو
اور جو ہوا ہے وہ
ہو کے بھی ہوا نا ہو
بیپناہ تذبذب ہے
سنسنی بلا کی ہے
بات کچھ نہیں لیکن
داستاں غضب کی ہے
خیر کیا کہا جائے
اس عجیب قصے
کو
حیرتوں کے قلزم میں
وحشتوں کے حصے کو
عمر ناتواں ساری
خواہشات لا حاصل
دہشتوں کا ما حاصل
بے حسی کی بیباکی
لا مکاں مکاں سازی
جان و دل کی بربادی
بے ستوں کی بستی میں
چاہتوں کا خمیازہ
ہر طرف سرابوں کی
صرف شعبدہ بازی
خیر کیا کہا جائے
سانس سانس دھڑکا ہے
بے ستوں کی بستی میں
ہر نظام ڈر کا ھے
گھر میں ہی نمٹ جائے
معاملہ جو گھر کا
اس لئے یہ سوچا ہے
آج ایسا کرتے ہیں
چشم و لب کو سی کر ہم
زندگی کی بستی میں
سیر کو نکلتے ہیں
سدرہ افضل
No comments:
Post a Comment