Friday, June 12, 2015

جب درد بھرے ہے دھڑکن میں

جب درد بھرے ہے دھڑکن میں
اور آنکھیں ساون بھادوں ہوں
پھر یوں بھی تو جینا پڑتا ہے
ہر زخم چُھپانا پڑتا ہے
ہنس ہنس کے دِکھانا پڑتا ہے
اِک آگ سی دل میں لگتی ہے
ہر آن سُلگنا پڑتا ہے
دُنیا کے ریت رواجوں پر
اس دل کو مِٹانا پڑتا ہے
رسموں کو نِبھانا پڑتا ہے
سینے میں سُلگتے ہیں ارماں
ارمانوں کی زندہ قبروں پر
ہر خواہش نوحہ پڑھتی ہے
پر جی کے دِکھانا پڑتا ہے
اشکوں کو چھُپا کر آنکھوں میں
گھُٹ گھُٹ کے سسکنا پڑتا ہے
جیون کے ادھور ے سپنوں کو
دل میں ہی سُلانا پڑتا ہے
ایسے بھی تو جینا پڑتا ہے
ہر زہر کو پینا پڑتا ہے
مجبوراً جینا پڑتا ہے
افسوس کہ جینا پڑتا ہے

No comments:

Post a Comment