اگر میں شاعر ہوتا
تو لکھتا میں سبھی قصے
گزرتے سال کی باتیں
وہ خوشیوں کے سبھی لمحے
دکھوں کی ساری سوغاتیں
اگر میں شاعر ہوتا
تو لکھتا میں جو گزرے دوستوں کے سنگ
وہ شوخ و شاد سارے رنگ
بچھڑنے کے وه سارے پل
میں لکھتا میرا گزرا کل
اگر میں شاعر ہوتا
میں ٹوٹے پھوٹے لفظوں کو
یوں دھاگے میں پرو دیتا
کہ جب بھی ان کو پڑھتا میں
تو آنکھوں کو بھگو لیتا
اگر میں شاعر ہوتا
تو لکھتا میں کہ بچپن سے جوانی تک
جو سارے خواب دیکھے تھے
اب ان میں کتنے پورے ہیں
جو آنکھوں میں بسے ہیں وہ
ابھی تک کیوں ادھورے ہیں
میں لکھتا زندگانی کے
سبھی حصے سبھی قصے
مگر یہ تب ہی ممکن تھا کہ جب
میں شاعر ہوتا
No comments:
Post a Comment