خواہش کی بند مُٹھی سے وہ ریت سی پَل پَل
پِھسلتی ہے ، اُسی کے بیچ میں شاید وہ جذبہ بھی کہیں ہوتا ہے ،
جسے پیار کہتے ہیں
محبت نام ہے جس کا
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
ہمیں خود اپنے ہاتھوں سے پِھسلتی ریت کی
ریزش کا اندازہ نہیں ہوتا
مگر وہ گِرتی رہتی ہے
کبھی ہم اُس کو پھر سے جمع کرنے اور اُٹھانے کے لیئے
کوشش بھی کرتے ہیں
مگر دِن رات سرکش ہوائیں
اِس قدر مٹّی اُڑاتی ہیں کہ کُچھ بھی ہو نہیں پاتا
یہ دِل فریاد تو کرتا ہے لیکن رو نہیں پاتا
تو وہ آنسو
کہ جِن کو اِس پھسلتی ریت میں بِکھری مُحبت کو
دوبارہ زندگی دینا تھا ، شاداب کرنا تھا
No comments:
Post a Comment