Friday, May 22, 2015

ایک التجا

کہیں بم دھماکے 
کہیں زلزلے
اے خدا کب رکے گے 
یہ سلسلے
کہیں عمل مکافات ہیں
کہیں قدرتی آفات ہیں
بشر پر آئی ہیں 
وہ سختیاں
پناہ مانگتے 
آدم ذاد ہیں
انسانی جانوں کا ہے 
اتنا ذیاں
کہ کانپ اٹھے ہیں 
ذمین و آسماں
گولیوں سے چھلنی 
عوام کا سینہ ہے
کتنا مشکل ان حالات 
میں جینا ہے
کیوں کھیل جاری ہے 
خون کا
کیا کردار ہے یہاں 
قانون کا
بے گناہوں کو قتل 
کرکے درندے
پھر کہلاتے ہیں 
نامعلوم بندے
ظالم سے سزا کیوں 
اتنی دور ہے
یہاں حکومت وقت 
کیوں مجبور ہے
گھرے ہر طرف سے 
عذاب ہیں
دھرے رہ گئے امن کے 
خواب ہیں
کیا ہماری ہیں 
یہ غفلتیں
جو ٹوٹ پڑی ہیں 
یہ آفتیں
یہاں نفرت اتنی ہے 
بڑھ گئی
کہ انسانیت ہی ہے 
چھن گئی
خود غرضی ہے 
مفاد ہے
ہر رشتہ یہاں
پیسے کے بعد ہے
ابلیس کے نقش قدم 
پر چل پڑے ہیں
آدم کے بیٹے قابیل 
بن گئے ہیں
کوئی سبب بنا 
میرے خدا
یہیں ختم ہو 
یہ سلسلہ
پھر امن قائم ہو 
ارض پاک میں
کوئی داغ نہ رہے 
اس کی ساکھ میں
متحد ہوجائیں 
پھر سے ہم وطن
جدا نہ ہو اب 
کسی سر سے تن
پھر گلی گلی 
میں سکون ہو
ہمیں ترقی کا ہی 
جنون ہو
ڈر و خوف میں 
کمی آئے
اب نہ کسی 
آنکھ میں نمی آئے
مٹی میں مل جائیں 
دشمن کے ارادے
تو ہمیں پھر سے 
یک جان بنادے
میری تجھ سے ہے 
یہی التجا
اے میرے خدا 
اے میرے خدا
میرے ملک کو 
اس عوام کو
تو رکھ اپنی امان میں
پھر سے آجائے امن وآتشی
میرے پیارے پاکستان میں

No comments:

Post a Comment