Saturday, May 2, 2015

کھلے آ سما ں کے تلے چند لوگ

کھلے آ سما ں کے تلے چند لوگ
بِناکچھ بھی اوڑھے پڑے سو رہے تھے
یہ وہ اجنبی تھے جو شہروں میں آ کر
... جو کھانا تھا اپنا وہ کھانا بچا کر
لگے رہتے تھے اپنے کاموں میں دن بھر
کہ شاید سنور جائے اُ ن کا مقدّر
تھے جاڑے کے دن یا کہ تھا گرم موسم
تھی گھر میں خوشی کوئی یا تھا کوئی غم
اُنہیں اپنے بچّوں کی روٹی کی خاطر
صبح شام کچھ کام کرنا پڑا تھا
حرام اپنا آرام کرناپڑا تھا
یہی آرزو تھی بڑے ہوں گے بچّے
تو ہوجائیں گے اُن کے سب خواب سچّے
ہاں اب اُن کے بچّے بڑے ہو گئے ہیں
مگر وہ زمیں اوڑھ کر سو گئے ہیں
احمد شہید

No comments:

Post a Comment