Friday, May 1, 2015

ہم بڑے ہوگئے

ہم بڑے ہوگئے
مسکراہٹ، تبسم، ہنسی، قہقہے
سب کے سب کھوگئے
ہم بڑے ہوگئے
ذمہ داری مسلسل نبھاتے رہیں
بوجھ اوروں کا خود ہی اُٹھاتے رہیں
اپنا دکھ سوچ کر روئیں تنہائی میں
محفلوں میں مگرمسکراتے رہیں
کتنے لوگوں سے اب مختلف ہوگئے
ہم بڑے ہوگئے
اور کتنی مسافت ہے باقی ابھی
زندگی کی حرارت ہے باقی ابھی
وہ جوہم سے بڑے ہیں سلامت رہیں
ان سبھی کی ضرورت ہے باقی ابھی
جو تھپک کرسلاتے تھے خود سوگئے
ہم بڑے ہوگئے
ختم ہونے کو اب زندگانی ہوئی
جانے کب آئی اورکب جوانی ہوئی
دیکھتےدیکھتےکیا سےکیا ہوگئے
جوحقیقت تھی اب وہ کہانی ہوئی
منزلیں مل گئیں
ہمسفر کھو گئے
ہم بڑے ہو گئے

No comments:

Post a Comment