Friday, May 1, 2015

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن دور ہوجاؤ یہ منظور کہاں

تم مرے دل کی خلش ہو لیکن
دور ہوجاؤ یہ منظور کہاں

ایک سایا جو کسی سائے سے گہرا بھی نہیں
جسم بھی جس کا نہیں،دل نہیں، چہرا بھی نہیں
خال وخد جس کے مجھے ازبر ہیں
دید۔۔۔ جس طرح کوئی دیکھتا ہو
راستہ،شیشے کی دیوار کے پار
گفتگو۔۔۔ جیسے کوئی کرتا ہو
اپنے ہی کان میں اک سرگوشی
لفظ۔۔۔ جیسےکہ ہو نظمائی ہوئی خاموشی

یہ تعلق ہے بس اک نقش جو ریت پہ کھینچا جائے
بادِ حیراں سے اڑانے کے لیئے
موجہء غم سے مٹانے کے لیئے
دشت اس دل کی طرح اپنی ہی تنہائی میں یوں سمٹا ہے 
جیسے پھیلا تو فلک ٹوٹ پڑے گا اس پر
کارواں کوئی نہ گزرا کسی منزل کی طرف
گھنٹیاں بجتی رہیں نیند کی خاموشی میں

شام ہر روز اترتی ہے سرِ جادہء جاں
وہی اک کہنہ اداسی لے کر
زندگی ڈوبتی جاتی ہے کسی سرد اندھیرے میں مگر
جگمگاتی ہےبہت دور کسی گوشے میں
اک چھوٹی سی تمنا کی کرن
سائے کا لمس ہے اس دل کی لگن

تم مرے ٹوٹے ہوئے خواب کا اک ذرّہ ہو
جو مری آنکھ میں چبھتا ہے تو خون بہتا ہے
پھر بھی کھو جاؤ یہ منظور کہاں
تم مرے دل کی خلش ہو لیکن۔۔۔ ۔۔

ثمینہ راجہ

No comments:

Post a Comment