جب درد پرانے ہو بیٹھے
جب یاد کا جگنو راکھ ہوا
جب آنکھ میں آنسو برف ہوئے
جب زخم سے دل مانوس ہوا
تب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا !
جب کرب کی لمبی راہوں میں
احساس کے بال سفید ہوئے
جب آنکھیں بے سیلاب ہوئیں
جب چاند چڑھا بے دردی کا
جب ریت پہ لکھی یادوں کو
بے مہر ہوا نے چھین لیا
جب 'یاد رتیں' بے داد ہوئیں
تب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا
جب آنکھیں کچھ آباد ہوئیں
جب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
احساس کا بچپن جاگ پڑا
پھر جذبے بے تقویم ہوئے!
پھر وقت نے کچھ انگڑائی لی
پھر سوچ کی قبر سےدھول اڑی
پھر پیاس کا برزخ بھول گیا
ایک ہجر سےکیا آزاد ہوئے؟
سو ہجر نئے ایجاد ہوئے!
پھر اشک میں دریا قید ہوا
پھر دھڑکن میں بھونچال پڑے
پھر عشق کاجوگی گلیوں میں
تقدیر کے سانپ اٹھا لایا
پھر ہوش کا جنگل سبز ہوا
پھر شوق درینہ جاگ اٹھا
پھر زلف کے تیور شام بنے
اس شام میں پھرمہتاب چڑھا
پھر ہونٹ کی لرزش گیت بنی
پھر شعر، شعور کا ورد ہوا
پھر خون سے لکھے جذبے بھی نیلام ہوئے
پھر درد "زلیخا "بن بیٹھا
پھر قرب کا کرب جوان ہوا
پھر مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
کچھ ہجر کی نبضیں تیز ہوئیں
جب قید کو تازہ عمر ملی
اس قیدی عمر کے بختوں نے
اک شامِ سہور سے پوچھ لیا
قید ہی رہنا تھا تو ہمیں
وہ پچھلا ہجر ہی کافی تھا
کیوں پچھلے جال کو چھوڑا تھا
کس عهد پہ پنجرہ توڑا تھا؟
جب جال تیری کمزوری تھے
صیّاد کو کیوں بدنام کیا
اب سوچ رہا ہوں مدّت سے
کیوں مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں؟
کیوں دل کو دھڑکنا یاد آیا
Sunday, May 17, 2015
جب درد پرانے ہو بیٹھے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment