Friday, May 22, 2015

اداسی تیرگی ہوتی تو شاید

اداسی تیرگی ہوتی تو شاید
اٍک دیا آباد کرنے سے ہی چھٹ جاتی
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی راستہ ہوتی
تو اسکو اپنے پیروں سے گنا کرتے
کہیں‌تو جا کے گنتی ختم ہوجاتی
مگر ایسا نہیں‌ ہے
اداسی پیڑ ہوتی تو
ہم اسکے سارے بازو کاٹ کے معذور کر دیتے
زمیں سے اس کا سایہ دور کر دیتے
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی سال ہی ہوتی
تو ہم خود کو یہ سمجھاتے
کہ دیکھو تین سو پینسٹھ دنوں کی بات ہے ساری
اداسی پھر نہیں ہوگی
مگر ایسا نہیں‌ہے
اداسی دائرہ ہوتی
تو ہم اس سے کسی تسنیخ کے خط کی طرح باہر نکل جاتے
کوئی تو ایسا لمحہ مل ہی جاتا
ہم سنبھل جاتے
مگر ایسا نہیں ہے
اداسی تو اداسی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے
یہاں‌ جتنی بھی بارش ہو
یہ مٹی نم نہیں‌ ہوتی
اداسی کم نہیں‌ ہوتی!

No comments:

Post a Comment