کاش ہم پلٹ سکتے
اور تم سے کہہ سکتے
راستہ جو چھوڑا تھا
کتنا یاد آتا ہے
وہ جو ایک چہرہ تھا
جس کی شوخ آنکھوں میں
میرا عکس رہتا تھا
مجھ کو اب رلاتا ہے
کاش ہم پلٹ سکتے
اور تم سے کہہ سکتے
دو حسین آنکھیں تھیں
میرے خواب بُنتی تھیں
میری راہ تکتی تھیں
مجھ کو دیکھ لیتیں تو
جیسے ہنس سی پڑتی تھیں
مجھ کو یاد آتی ہیں
رات بھر جگاتی ہیں
کاش ہم پلٹ سکتے
اور تم سے کہہ سکتے
مرمری سے ہاتھوں پر
جب حنا مہکتی تھی
پھول سی کلائی میں
چوڑیاں کھنکتی تھیں
میرا نام لیتی تھی
اسکی جھیل آنکھوں میں
جو حیا چمکتی تھی
چُٹکیاں سی لیتی ہے
دل کو چُورکرتی ہے
کاش ہم پلٹ سکتے
اور تم سے کہہ سکتے
دیکھو لوٹ آئے ہیں
دیکھ لوٹ آئے ہیں
آزما کے سارے در
تیرے پاس آئے ہیں
جانے ہے یہ کیسا دکھ
کچھ بھی کہہ نہیں سکتے
فاصلہ ہے دوری ہے
منزلیں ادھوری ہیں
اور اگر اے جانِ جاں
ہم پلٹ بھی آئیں تو
راستے نہ پلٹیں گے
فاصلے نہ سمٹیں گے
تیری شوخ آنکھوں میں
درد آن ٹھہرا ہے
دو حسین آنکھیں اب
درد چُنتی رہتی ہیں
مجھ سے روٹھی رہتی ہیں
پھول سی کلائی میں
چوڑیاں کھنکتی ہیں
جیسے بین کرتی ہیں
کاش ہم پلٹ سکتے
اور تم سے کہہ سکتے
No comments:
Post a Comment