Saturday, April 30, 2016

وہی آبلے مرے پاؤں کے

وہی آبلے مرے پاؤں کے
وہی الجھنیں دلِ زار کی
وہی جسم و جاں کی اذیتیں
سرِ بزمِ شوق ہیں جلوہ گر
انھی صورتوں کی شباہتیں
وہی کربِ ذات کے سلسلے
وہی سنگ و خشت کی بارشیں
وہی بے یقین سی منزلیں
وہی بے مراد مسافتیں
وہی شہرِ جاں کی اداسیاں
وہی نارسائی کی وحشتیں
وہی انتظار کے وسوسے
وہی نامہ بر کی وضاحتیں
وہی آزمائشیں ہجر کی
وہی خواب عہدِ وصال کے
وہی ذوق چشمِ نیاز کا
وہی رنگ عکسِ جمال کے
وہی ایک حسنِ خیال کش
وہی اک صباحتِ دلنشیں
جسے سوچیے تو قرینِ جاں
جسے دیکھیے تو کہیں نہیں
وہی رتجگوں کا خمار ہے
وہی سلوٹیں ہیں لباس کی
وہی ضابطے ہیں سماج کے
وہی التجائیں ہیں پیاس کی
وہی یادگارِ گذشتگاں
وہی سوگ مرگِ بہار کے
وہی سینہ کوبیِ حسرتاں
وہی مرثیے دلِ زار کے
وہی خار ہیں تری راہ کے
وہی آبلے مرے پاؤں کے
تری چشمِ ناز کے منتظر
وہی قافلے ہیں دعاؤں کے
وہی لا علاج سے درد ہیں
وہی بے نیاز طبیب ہیں
مرے خونِ دل پہ پلے ہوئے
وہی میرے اپنے رقیب ہیں
وہی بے مکین حویلیاں
وہی بے چراغ سے بام و در
وہی آنسوؤں کی شہادتیں
غمِ زندگی کے محاذ پر
وہی دشمنانِ سناں بہ کف
وہی دوستانِ بہانہ جُو
وہی ایک حشر قدم قدم
وہی اک تماشۂ چار سُو
وہی بادلوں کی عدالتیں
وہی بجلیوں کی گواہیاں
وہی موسموں کی نوازشیں
وہی گھونسلوں کی تباہیاں
وہی اختیار کی دہشتیں
وہی اقتدار کی مستیاں
وہی چیختے ہوئے روز و شب
وہی سونی سونی سی بستیاں
وہی سال خوردہ روایتیں
وہی کم نگاہ سے نظریے
وہی بے شعور سی منطقیں
وہی بے ثبات سے فلسفے
وہی پرچموں کی بلندیاں
وہی خوئے مشقِ سپہ گری
وہی خوں نصیب معاشرت
وہی انتہائے درندگی
وہی گردشوں کا ہجوم ہے
وہی آگہی کے عذاب ہیں
وہی دشت حدِ نگاہ تک
وہی آرزو کے سراب ہیں
وہی آنچلوں کی شکستگی
وہی پگڑیوں کے وقار ہیں
وہی عارضوں کی ہیں زردیاں
وہی حسرتوں کے مزار ہیں
اُسی سنگلاخ زمین پر
وہی مرحلے ہیں تلاش کے
وہی بین کرتی ضرورتیں
وہی گھاؤ فکرِ معاش کے
وہی رہنما ہیں کہ آج بھی
جنھیں خود تمیزِ سفر نہیں
جنھیں راستوں کا پتہ نہیں
جنھیں منزلوں کی خبر نہیں
وہی پتھروں کا غرور ہے
وہی آئنوں کا مزاج ہے
وہی منصفوں کے ہیں فیصلے
وہی بیڑیوں کا رواج ہے

Friday, April 29, 2016

مجھے اب ڈر نہی لگتا


کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہی لگتا

کسی کو آزمانے سے
کسی کو چھوڑ دینے سے
کسی کے چھوڑ جانے سے
مجھے اب ڈر نہی لگتا

نہ شمع کو جلانے سے
نہ شمع کو بجھانے سے
مجھے اب ڈر نہی لگتا
اکیلے  مسکرانے سے
کبھی آنسو بہانے سے
نہ اس سارے زمانے سے
حقیقت سے فسانے سے
مجھے اب ڈر نہی لگتا

کسی کی نارسائی سے
کسی کی پارسائی سے
کسی کی بے وفائی سے
کسی دکھ انتہائی سے
مجھے اب ڈر نہی لگتا

نہ تو اس پار رہنے سے
نہ اس پار رہنے سے
نہ اپنی زندگانی سے
نہ اک دن موت آنے سے
مجھے اب ڈر نہی لگتا
مجھے اب ڈر نہی لگتا

کبھی مایوس مت ہونا

اندھیرا کتنا ہی گہرا ہو
سحر کی راہ میں حائل
کبھی بھی ہونہیں سکتا
سویرا ہوکے رہتا ہے
امیدوں کے سمندر میں
تلاطم آتے رہتے ہیں
سفینے ڈوبتے بھی ہیں 
سفر لیکن نہیں رکتا
مسافر ٹوٹ جاتے ہیں
مگر مانجھی نہیں تھکتا
سفر طے ہوکے رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا

خدا حاضر ہے ناظر بھی
خدا ظاہر ہے منظر بھی
وہی ہے حال سے واقف
وہی سینوں کے اندر بھی
کبھی تم مانگ کر دیکھو
تمہاری آنکھ کے آنسو
یونہی ڈھلنے نہیں دے گا
تمہار آس کی گاگر
کبھی گرنے نہیں دے گا
ہوا کتنی مخالف ہو
تمہیں مڑنے نہیں دے گا
کبھی مایوس مت ہونا

دریدہ دامنوں کو وہ
رفو کرتا ہے رحمت سے
اگر کشکول ٹوٹا ہو -
تو وہ بھرتا ہے نعمت سے
کہیں یونس کے ہونٹوں پر
اگر فریاد اٹھتی ہے
کسی بنجر جزیرے پر
کدو کی بیل اگتی ہے
جو سایہ ہے اور پانی بھی
علاج ناتوانی بھی
کبھی مایوس مت ہونا

جب اسکے رحم کا ساگر
چھلک کے جوش کھاتا ہے
قہر ڈھاتا ہوا سورج
یکایک کانپ جاتا ہے
ہوا اٹھتی ہے لہرا کر
گھٹا سجدے میں گرتی ہے
جہاں دھرتی ترستی ہے
وہیں رحمت برستی ہے
ترستے ریگزاروں پر
ابر بہہ کے ہی رہتا ہے
نظر وہ اٹھ کر رہتی ہے
امر ہوکے ہی رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا

طاغوت وقت کا خط

طاغوت وقت کا خط
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حسن یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہوں حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکر عمر عزیز ہے 
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیر شہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کے دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیر شہر کا ذکر ہو -
نہ غنیم وقت کی بات ہو
کہیں تارتار ہوں عصمتیں
مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
مرے جان نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر 
مرے عسکری مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے
کبھی میرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا
وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے
وہ تو مرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو
انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جاں نثاروں کو حکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیر شہر کا حکم ہے 
بنااعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہے
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں 
سبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے نہیں کوئی واسطہ
انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
انہیں زر کا سکہ اچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
انہیں کال کوٹھری میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیان کرے
وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بھوک پیاس کی ماردو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمین میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سے نکال دو

شاعر کا جواب
جو ہیں بے خطار وہی
یہ عجیب طرز نصاب ہے
جو گناہ کرے وہ معتبر
یہ عجیب روز حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرعتاب ہے
کہیں پر شکستہ ہے فاختہ 
کہیں زخم زخم گلاب ہے
مرے دشمنوں کو جواب دو 
نہیں غاصبوں پر شفیق میں
مرے حاکموں کو خبر کرو 
نہیں آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوف مرگ نہیں زرا
میرا حرف حرف ہے ، لہولہو
میرا لفظ لفظ ہے آبلہ

مجھے تم یاد رکھو گے


ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﮨﻢ ﻟﯿﮑﻦ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﮯ ﺟُﮕﻨﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺷﺐ ﮐﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ
ﺳِﺘﺎﺭﮦ ﺑﻦ ﮐﮯ ﭼﻤﮑﯿﮟ ﮔﮯ
ﺗُﻤﮩﯿﮟ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﺑﮩﺖ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﻨﮯ ﮐﮯ
ﺑﮩﺎﻧﮯ ﺗﻢ ﺑﻨﺎﺅ ﮔﮯ
ﺑﮩﺖ ﮐﻮﺷﺶ ﮐﺮﻭ ﮔﮯ ﺗُﻢ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﻮﺳﻢ ﺟﻮ ﺑﺪﻟﯿﮟ ﺗﻮ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﻧﮧ ﺁﮰ
ﻣﮕﺮ
ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﻮ ﺳﺮﺩ ﻣﻮﺳﻢ ﻣﯿﮟ
ﺩِﺳﻤﺒﺮ ﮐﯽ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﻣﯿﮟ
ﺗُﻤﮭﺎﺭﮮ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮔﻮﺷﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﻤﯽ ﮨﯿﮟ ﺑﺮﻑ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ
ﻭﮦ ﯾﺎﺩﯾﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﭘﮕﮭﻠﯿﮟ ﮔﯽ
ﮐﺒﮭﯽ ﮔﺮﻣﯽ ﮐﯽ ﺗﭙﺘﯽ ﺳُﺮﺥ ﮔﮭﮍﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﺿﯽ ﮐﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮔﮯ
ﺗﻮ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ ﺑﮭﯿﮓ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﯽ
ﮔﮭﮍﯼ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﮐﻮ ﺩﻭﮌﮮ ﮔﯽ
ﮐﺌﯽ ﺳﺎﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﮔُﻢ ﮔﺸﺘﮧ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﺁﮰ ﮔﯽ
ﺑﭽﮭﮍ ﺟﺎﺅ !! ﻣﮕﺮ ﺳُﻦ ﻟﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﯾﺴﯽ
ﮐﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺑﺎﺕ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮔﯽ
ﺟِﺴﮯ ﺗُﻢ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ
ﻣُﺠﮭﮯ ﺗُﻢ ﯾﺎﺩ ﺭﮐﮭﻮ ﮔﮯ

نہ اب وه وقت پہلے سا

نہ اب وه وقت پہلے سا
نہ اب وه حالات  پہلے سے
كہاں وه وقت تها ہم پر
كہ اک دوجے كو بن ديكهے
كبهى نہ دن گزرتا تها
کبهى نہ رات كٹتى تهى
جو سوچے بن گزرتى تهى
اور
اب يہ وقت ہے ہم پر
بہانے بهى بنانے كو
كوئى لمحہ نہيں باقى
دلچسپى نہيں باقى
نہ وه پہلے سى چاہت ميں
رہى كچهه شدتيں باقى
نہ جذبوں ميں حرارت ہے
نہ باتوں ميں شرارت ہے
نہ شكوه،نہ شكايت ہے
گزرتے وقت كے ہمراه
سبهى كچهه خواب لگتا ہے
اگر باقى ہے تو يہ
كہ
وه اب بهى ياد آتی ہے
كبهى بے كار مطلب سے
كبهى انجان حوالے سے
عداوت كے بہانے سے
شكايت كے بہانے سے
مجهے وه ياد آتی ہے
اک عادت كے بہانے سے

Thursday, April 28, 2016

محبت سوچتی ہے

محبت سوچتی ہے
یونہی کیا بے سبب میں نے
تجھے دلدار ٹھہرایا
تری چشم کرم کو صبح کا شاہکار ٹھہرایا
ترے رخسارو لب کوحسن کا معیار ٹھہرایا
تہجد کی ہواؤں اور اشکوں کی دعاؤں میں
دھلی تازہ سحر جانا
تمہیں جانِ تمنا کہہ دیا خلدِ نظر جانا
یونہی کیا بے سبب میں نے؟
نہیں ایسا نہیں ۔۔ہرگز
بہت کچھ سوچ کر تجھ کو
ترے پاگل نے چاہا ہے
محبت کیا کر
یہ تیری شخصیت کے رنگ
پھولوں کی طرح شاداب ہو جائیں
محبت کو پہن لے اور مخمل کی طرح ہو جا
یہ بالوں کو بناتے کا سکھاتی ہے سلیقہ
یہ کپڑوں کو بدلنے کی بھی عادت ڈال دیتی ہے
کریزیں ٹھیک رکھتی ہے
یہ شکنوں سے بچاتی ہے قمیضوں کو
یہ جوتوں کی سیاہی کو چمک ہر روز دیتی ہے
محبت گفتگو کو نازکی دیتی ہے کلیوں کی
محبت زندگی کو ایک رونق بخش دیتی ہے
محبت خوبصورت تر بناتی ہے
بدن پر تتلیوں کے پر بناتی ہے
وفا کے ساحلوں پہ گھر بناتی ہے

برف باری سے پہلے


میں نے بہت کوشش کی
لیکن میرے کھلونے
تمہاری گڑیا سے بڑے نہ ہو سکے
میں پیاس کا صحرا عبور نہ کر سکا
اور نیند کی جھیل پر
اپنی محبت نہ بچھا سکا
جس پر پاوں رکھ کر
تم میرے دل تک آ پہنچتی!

پھر میرے خواب بڑے
اور جوتے چھوٹے کیسے ہو گئے
اس دکاندار کے دل کی طرح
جس میں خدا کی پوری جنت تو سما سکتی ہے
لیکن ایک گڑیا گھر نہیں رکھا جاسکتا!

اپنی ڈائری میں
میری نظمیں دیکھ کر اداس کیوں ہو گئی ہو
کیا میں وہی نہیں ہوں
جس نے تمہاری ہتھیلی پر
دوسرے جنم میں ملنے کا وعدہ
اپنے ہونٹوں کے واٹر کلر سے پینٹ کیا تھا!

اپنے بدن کی آرٹ گیلری سے
باہر نکل کے دیکھو
محبت کے درختوں پر
ایک بار پھر میری جوانی کے پھول آرہے ہیں
مٹیالے کینوس پر
قبریں اگنے کا موسم ابھی بہت دور ہے!

اس بار جوانی کے پہاڑوں پر
برف باری شروع ہونے سے پہلے پہلے
میں پیاس کا صحرا عبور کر لوں گا
اور نیند کی جھیلوں پر
آسمان کے بڑے بڑے ٹکڑے بچھا دوں گا
تاکہ تمہیں مجھ تک پہنچنے میں
کبھی تاخیر نہ ہو سکے

دل آج بھی مقروض ہے

دل آج بھی مقروض ہے

بچپن کی عیدوں کا
چاند کی دیدوں کا
وصل کی شاموں کا
دیر جاگی راتوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

ریت کے گھروندوں کا
ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا
کاغذ کے بیڑوں کا
بارش کے ریلوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

چمکتے ہوئے جگنوﺅں کا
رنگ برنگی تتلیوں کا
کمسن کھلتی کلیوں کا
نت نئی بہاروں کا

دل آج بھی مقروض ہے

کچے پکے خوابوں کا
بھولی بسری یادوں کا
کٹھی میٹھی باتوں کا
بے نام رشتوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

بن مانگی دعاﺅں کا
تسلسل سے عطاﺅں کا
بے بہا رحمتوں کا
بے شمار نعمتوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

آنکھوں کے سمندر کا
اُمنڈتے قیمتی اشکوں کا
چھلکتے انمول موتیوں کا
بھیگتے کانپتے ہونٹوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

ماں کی محبت کا
باپ کی شفقت کا
بے پناہ اُلفت کا
دونوں کی عظمت کا

دل آج بھی مقروض ہے

ہر روز کی خطاﺅں کا
چھوٹی موٹی سزاﺅں کا
ہلکی پھلکی آہوں کا
محفوظ پناہوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

اُلٹے پھلٹے لفظوں کا
ٹوٹے پھوٹے شعروں کا
ٹیری میڑی باتوں کا
بے عنوان تحریروں کا

دل آج بھی مقروض ہے

کاغذ میں لپٹے خیالوں کا
پل میں گزرے سالوں کا
سوزِعشق کے احوالوں کا
دل میں پھوٹے چھالوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

زندگی موت کا آئینہ

جیسی زندگی ہم گزارتے ہیں ویسی  موت ہمیں ملتی ہے
ہم بزدل آدمی کی زندگی گزارتے ہیں
تو ہمیں موت بھی ویسی ہی بزدل نصیب ہوتی ہے
ہم خوب صورت زندگی جیتے ہیں
تو موت بھی خوب صورت ملتی ہے
ہم محبت کی زندگی گزارتے ہیں
تو موت بھی محبوبہ کی طرح ہمیں ملتی ہے
انسان نے ہر شے کو گدلا کیا ہے
ہر قیمتی آدرش کو میلا کیا ہے
ہر لفظ کو بے معنی کیا ہے
اللہ کی بنائی ہوئی چیزوں کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے
لیکن انسان موت کو گدلا نہیں کر سکا
میلا نہیں کر سکا
بے معنی نہیں کر سکا
مسخ نہیں کر سکا
موت سے زیادہ خالص شے دنیا میں نہیں ہے
اس سے زیادہ با معنی شے موجود نہیں ہے
مگر میں کیوں ایسا کہہ رہا ہوں
مجھے تو ایک بہت ہی خوب صورت زندگی بسر کرنی ہے
محبت سے لبریز
رقص کرتی ہوئی زندگی
جس میں رقاص غائب ہو جاتا یے
اور صرف رقص باقی رہتا ہے
مجھے ایک بے حد لذت بھری
رسیلی زندگی سے گلے ملنا ہے
تاکہ میری موت بھی خوب صورت ہو

Sunday, April 24, 2016

ان کہے سوالوں کا

ان کہے سوالوں کا
درد کیسے ہوتا ہے
تشنہ کام خواہشوں کی ٹھیس کیسے اٹھتی ہے
بے زبان جذبوں کو جب سرا نہیں ملتا۔
تشنگی سی رہتی ہے آسرا نہیں ملتا ۔
وہ بھی ان عذابوں سے کاش اس طرح گزرے
کاش اس کی آنکھوں میں خواب بے ثمر اتریں
کاش اس کی نیندوں میں رت جگے مسلسل ہوں
باوجود خواہش کے ایسے سب سوالوں کا
ربط توڑ آیا ہوں
آج اس کے ہونٹوں پر
لفظ چھوڑ آیا ہوں

Friday, April 22, 2016

ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ


ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮎ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮭﻨﯽ ﮨﮯ،
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﭘُﺸﺖ ﮐﯽ ﺟﺎﻧﺐ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﻭﺣﺸﺖ ﭘﺮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﮎ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮭﻨﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﺎﻭﺭ ﮐﺮﺍﻧﺎ ﮨﮯ،
ﮐﺴﯽ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺉ ﺑﭽّﮧ
ﯾﻘﯿﻨﯽ ﻣﻮﺕ ﺳﮯ ﺟﺐ ﻟﮍ ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﻮ
ﮐﺴﯽ ﻣﺎﮞ ﮐﮯ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﭘﮧ
ﺍﯾﺴﯽ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮐﯽ ﮔﮭﮍﯼ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﮔُﺰﺭﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﯾﮧ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺑﭽّﮯ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﭘﺮ
ﺭﺍﺕ ﺩﻥ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﻣﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﻥ ﮐﻮ ﺧﻮﻑ ﮐﮯ ﻋﻔﺮﯾﺖ ﺳﮯ
ﮐﯿﺴﮯ ﭼﮭﮍﺍﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﺍﮎ ﺩﻥ
ﺩُﻋﺎ ﺁﺑﺎﺩ ﮐﻮ ﺟﺎﺗﯽ
ﺩُﻋﺎ ﮐﯽ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﺲ ﭼﮭﻮﭦ ﺟﺎﮰ ﮔﯽ
ﺩُﮐﮭﻮﮞ ﮐﺎ ﯾﮧ ﺗﻤﺎﺷﺎ ﺧﺘﻢ ﮨﻮﺟﺎﮰ ﮔﺎ
ﺍﻭﺭ ﺁﺧﺮ
ﺑﻨﺪﮬﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﺳﯽ ﭨﻮﭦ ﺟﺎﮰ ﮔﯽ
ﺍﮔﺮ ﻣﻮﻗﻊ ﻣﻼ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ
ﮐﮭﻠﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ ﭘﮧ ﺑﮭﯽ
ﺍﮎ ﻧﻈﻢ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﮔﺎ

ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ

ﻣﺤﺒﺖ ﺍﯾﮏ ﺁﻭﺍﺭﮦ ﺗﻤﻨﺎ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﭩﮑﺘﯽ ﮨﮯ
ﻗﺪﯾﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﺻﻞ
ﻣﻮﺕ ﺍﻭﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺳﮯ ﻣﺎﻭﺭﺍﺀ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺘﻨﮯ ﺟﻨﻤﻮﮞ ﺳﮯ
ﮐﺴﯽ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺑﯿﺎﺑﺎﻧﯽ ﻣﯿﮟ ﺍﻓﺘﺎﺩﮦ
ﮐﺒﮭﯽ ﺍﺷﮑﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮈﮬﻠﺘﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﻟﻮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﺮﮐﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﺴﯽ ﺍﻧﺠﺎﻡ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺍﺟﮍ ﮐﺮ
ﺍﮎ ﻧﯿﺎ ﺁﻏﺎﺯ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ
ﺯﻭﺍﻝ ﺍﻭﺭ ﺭﻓﻌﺘﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺍﺳﺘﺎﻧﯿﮟ
ﺍﻭﺭ ﺗﻐﯿﺮ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﻭﺍﻧﯽ
ﻓﻘﻂ ﺍﮎ ﺻﻮﺭﺕ ﺁﻻﻡ
ﮨﺮ ﻟﻤﺤﮧ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﻋﺎﻟﻢ ﮨﻮ
ﮨﺮ " ﺷﮯ " ﺍﻭﺭ " ﻻﺷﮯ " ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻓﺴﺮﺩﮔﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭﯼ ﺳﯽ ﻣﭽﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺤﺒﺖ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ

سادگی نہیں مِلتی

شفق سے دُور ، ستاروں کی شاہراہ سے دُور
اُداس ہونٹوں پہ جلتے سُلگتے سِینے سے
تمھارا نام کبھی اِس طرح اُبھرتا ہَے
فضا میں جیسے فرشتوں کے نرم پَر کُھل جائیں
دِلوں سے جَیسے پُرانی کدُورتیں دُھل جائیں
یہ بولتی ہُوئی شب ، یہ مُہِیب سناٹا
کہ جیسے تُند گناہوں کے سیکڑوں عفرِیت
بس ایک رات کو دُنیا کے حُکمراں ہو جائیں
اجل کے غار سے نِکلی ہُوئی گراں رُوحیں
لُہو سے پیاس بُجھا کر کہیں مزاروں میں
نشے کے بوجھ سے چِیخیں ، تو چِیختی رہ جائیں
اِسی جنوں میں ، اِسی آندھیوں کے میلے میں
تمھارا نام کہیں دُور جگمگاتا ہَے
سفید ، دودھ سے شفاف ، عکس سے نازک
اُداس رُوح کی لہروں پہ نرم دیپ جلائے
تمھارے نام سے یادوں کے کاروانوں میں
چمکتی جاگتی چاندی کی گھنٹیوں کی کھنک
کچھ آنسوؤں کی گُھلاوٹ ، کچھ آرزو کی کسک
یہ ایک نام نہ ہوتا تو اِس اندھیرے میں
جہاں سحر کا پتا ہَے نہ زندگی کا سُراغ
نہ جانے کِتنے عقیدے ، نہ جانے کِتنے خیال
نہ جانے کتنے ستارے، نہ جانے کتنے چراغ
تلاش کرتے مگر روشنی نہیں مِلتی
ہزار رنگ بِکھرتے ، ہزار کچے رنگ
جو اَب نصِیب ہَے وُہ سادگی نہیں مِلتی

دعا

وہ کہتا ہے
ٌمیں ہر انسان کے دل میں چھپے رازوں سے واقف ہوں
دعائیں اس کے ہونٹوں پر جو رہ رہ کر مچلتی ہیں
انہیں میں تب سے سنتا ہوں
کہ جب اس کو ابھی الفاظ کے معنی نہ آتے تھے
اگر یہ بات ہے یونہی تو پھر وہ کیوں یہ کہتا ہے؟؟
زمیں والوں دعا مانگو
جو دل میں ہے وہ سب کہ دو
ہے جو بھی مدعا، مانگو
میرے د ل میں بہت دن سے یہ الجھن تھی
اگر وہ جانتا ہے (اور یقیناً جانتا ہے) تو
وہ کیوں میری دعاؤں کو
میرے ہونٹوں سے سننے کے لیے اصرار کرتا ہے
تو کیا اس کو
مری بے چارگی ، بے مائیگی اور بے کسی کی گڑگڑاہٹ سے
کوئی تسکین ملتی ہے
وہ مالک ہے زمینوں کا، آسمانوں اور خلاؤں کا
مرے اشکوں کی آخر اس سخی کو کیا ضرورت ہے
انہی الجھے سوالوں کا بہت سا بوجھ تھا دل پر
جسے لے کر
میں پہلی مرتبہ داخل ہوا تھا صحنِ کعبہ میں
ہوا کچھ یوں
نمازِ فجر سے پہلے، حضوری کی عنایت کے تشکر میں
اٹھائے ہاتھ جب میں نے او ر ان معمول
کے لفظوں میں پھر وہ دعا مانگی
کہ جو میرا وظیفہ تھا
تو یک دم یوں لگا مجھ کو
کسی نادیدہ دستِ مہرباں نے میرے شانے کو
ؓبڑی شفقت سے تھپکا ہو
اسی لمحے کوئی خوشبو میرے چارسو پھیلی
او ر اِک رحمت بھری آواز نے کانوں میں رَس گھولا

مرے بندے
دعا وہ راستہ ہے جوتجھے تجھ سے ملاتا ہے
یہ ایسا آئینہ ہے
جس میں کوئی عکس بھی قائم نہیں ہوتا

کہ میں اس کو اٹھا لیتاہوں بننے سے کہیں پہلے
کہ اس کے حسن میں اس حسنِ کامل کی شباہت ہے
یہ ساری وسعتِ کون ومکاں جس کی شباہت ہے
شفاعت اِس کو حاصل حشر میں اس ذات میرے محمدﷺ کی بہت مرغوب سنت ہے
دعا میری نہیں بندے، دعا تیری للہ

شجر اپنی زمین جب چھوڑتے ہیں


سبھی کچھ تھا
جسے ہم چھوڑ کے گھر سے نکلنے کے لیے بے تاب رہتے تھے
سبھی کچھ تھا
کہ اپنے واسطے اس سر زمیں پر کچھ نہیں رکھا
درو دیوار اندر سے قفس معلوم ہوتے تھے
محبت اور نفرت تھی
جو اپنی تھی
ہوائیں، بارشیں، موسم
سبھی وہ کچھ جو ہر اک شخص کو قدرت سے ملتا ہے
وہ ہنگامے جنہیں آنکھیں ترستی ہیں
وہ اپنے لوگ
جو اب آنسوؤں کے گھر میں رہتے ہیں
مگر اس وقت جب ہم سانس بھی لیتے ہیں
گھٹن ایسی کے جیسے دم نکلتا ہو
یہی لگتا تھا
جیسے اجنبی لوگوں میں زندہ ہیں
ہمیشہ خواب کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے یہ سوچتے رہتے
کہ اپنی آنکھ جب کھولیں
تو منظر ہی بدل جائے
کسے معلوم تھا
منظر بدلنے سے وہی کردار رہتے ہیں
وہی دیوار رہتی ہے
وہی زنجیر پاوں میں
وہی تصویر آنکھوں میں
نگاہوں میں وہ سب کچھ ہے
کہ جب سرسبز شاخوں پر ہمیشہ پھول کھلتے تھے
خزاں کی رت میں بھی اک تازگی محسوس ہوتی تھی
مگر اب زندگی کاغذ کے پھولوں اور خوشبو کانچ کی بوتل کے اندر قید ہم پر مسکراتی ہے
ہمارے ہاتھ خالی ہیں مگر ذہنوں میں گزرے روز و شب کی ایک البم ہے
خبر کیا تھی
شجر اپنی زمیں جب چھوڑتے ہیں
سوکھ جاتے ہیل

سب اداس لوگوں کی ایک سی کہانی ہے

سب اداس لوگوں کی ایک سی کہانی ہے
ایک جیسے لہجے ہیں ، ایک جیسی تانیں ہیں
شہر یار پر سب کی ایک سی اڑانیں ہیں

سب اداس لوگوں کے بے مراد ہاتھوں پر
ایک سی لکریں ہیں
سب کے زرد ہونٹوں پر
قرب کی مناجاتیں ، وصل کی دعائیں ہیں
بے چراغ راتوں میں ، بے شمار شکنوں کے
ایک سے فسانے ہیں
کھکھلاتے لمحوں میں بے وجہ اداسی کے
ایک سے بہانے ہیں
اشک آنکھ میں رکھ ، کھل کے مسکرانے کی
ایک جیسی تشریحیں ، ایک سی وضاحت ہے
ایک جیسے شعلوں میں سب کے خواب جلتے ہیں
ایک جیسی باتوں پر سب کے دل دھڑکتے ہیں
سب اداس لوگوں کی ایک سی کہانی ہے

میرے ہاتھوں کی لکیروں کو بنانے والے

میرے ہاتھوں کی لکیروں کو بنانے والے
ان لکیروں پہ مقدر کو چلانے والے

کیا ضروری تھا مقدر میں میرے غم لکھنا
ساتھ پھولوں کے کانٹوں کو لگانے والے

اب تو عادت سی بنا لی ہے ہم نے اپنی
تم ہو روٹھنے والے ، ہم منانے والے

کاش تم نے بھی کبھی ہم کو پکارا ہوتا
ہم تیرا نام ہونٹوں پہ سجانے والے

پھول چنتے ہیں سبھی کانٹے کوئی چنتا نہیں
ہم ہیں کانٹوں کو پلکوں سے اٹھانے والے

ان کے دل میں بھی کبھی درد تو ہوتا ہو گا
وہ جو ہوتے ہیں اوروں کو ہنسانے والے

تم چاہو بھی تو ہم کو نہ بھلا پا ؤ گے
ہم شناساؤں میں تیرے ہیں پرانے والے

چھوڑ دی محفل دنیا بھی اے خالد ہم نے
پھر بھی خوش ہوتے نہیں یہ زمانے والے

ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺅ

اﻭﺭ ﭘﮭﺮ
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﮧ ﺩﯾﺎ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ،
ﻟﻮﭦ ﺟﺎﺅ ﯾﮧ ﺩﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﻨﺎ،
ﺍﭘﻨﮯ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍﻝ ﺑﮭﯽ ﻟﮯ ﻟﻮ،
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﺍﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﺳﻤﯿﭧ ﻟﯿﺎ .
ﭘﺮ ...
ﻣﺮﮮ ﺗﺎﺭ ﺗﺎﺭ ﺩﺍﻣﻦ ﺳﮯ
ﻣﯿﺮﮮ ﺳﺎﺭﮮ ﺳﻮﺍﻝ،
ﺳﺎﺭﮮ ﻣﻼﻝ،
ﺍﻭﺭ ....
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﺗﯽ ﺣﺴﺮﺕ
ﺳﺐ ﮐﮯ ﺳﺐ ﮔﺮ ﭘﮍﮮ ﺍﺳﯽ ﺩﺭ ﭘﺮ
ﻣﯿﮟ ﺍﮐﯿﻼ ﭘﻠﭧ ﮐﮯ
ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﺎ.

ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ

ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
ﺗﻘﺼﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﻟﻤﺤﻮﮞ ﮐﮯ ﺍﺟﮍﻧﮯ ﻣﯿﮟ
ﺗﺎﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﻣﺮﺷﺪ ﮨﮯ ﺍﺩﺍﺳﯽ ﮐﺎ
ﺑﮯ ﭘِﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮨﺮ ﺯﻟﻒ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ
ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺟﻮﮔﯽ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ
ﺟﺎﮔﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﺳﺐ ﺭﻧﮓ ﻣﯿﺴﺮ ﮨﯿﮟ
ﺗﺼﻮﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯽ
ﺍﺏ ﮐﻮﻥ ﮐﮩﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ
ﮨﺮ ﺧﻮﺍﺏِ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ
تعبیر نہیں هوتی

لکیریں اب بھی باقی ہیں

ہاتـــھوں کـــی لکیــــــروں پـــــہ
گفتگو جب چل نکلی
تب اُداس لہجے میں
میں نے اُس سے یہ کہا
نظر مُجھ کو نہیں آتا
تُمہارا نام بلکل بھی
اِن اُلجھی لکیروں میں
تب پلٹ کہ وہ بولی
لکیریں جُھوٹ ہوتی ہیں
تُمہارے ساتھ ہوں میں تو
تُمہارے پاس ہوں میں تو
ضروری تو نہیں ہوتا
مُقدر ہو لکیروں میں
یہ بے وفا لکیریں ہیں
لکیریں بس لکیریں ہیں
اعتبار مت کرنا
بے وفا لکیروں پہ
مگر وہ جُھوٹ کہتی تھی
نتجہ یہ کے اُس کا ساتھ
نہیں باقی رہا لیکن
لکیریں اب بھی باقی ہیں
لکیریں اب بھی باقی ہیں

ہاتھ کی لکیروں میں

ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو..
ان فضول باتوں میں
کس لئے الجھتے ہو..
جس کو ملنا ہوتا ہے
بن لکیر دیکھے ہی..
زندگی کے راستوں پر
ساتھ ساتھ چلتا ہے..
پھر کہاں بچھڑتا ہے
جو نہیں مقدر میں..
کب وہ ساتھ چلتا ہے
ہاتھ کی لکیروں میں
کیا تلاش کرتے ہو..

Tuesday, April 19, 2016

محبت بوڑھی نہیں ھوتی

سنو ..!!
محبت بوڑھی نہیں ھوتی
انسان بوڑھے ھو جاتے ہیں
ہر لمحہ اسکی تمازتوں میں
پگھلنا کا جنوں بڑتا رہتا ھے
دوری بے معنی ھو جاتی
محبت جب سوچوں پہ چھا جاتی ھے
جسم و روح جب یاد یار میں محو زکر ھو جاتے ہیں ..
سنو محبت مٹتی نہیں ھے
بڑھتی ھے
ہر گزرتے پل
قرب کی، وصال خواہشیں انگڑائیاں لیتی ہیں
پہلو یار میں بیٹھے
سرگوشیوں کی خواہش
لمس کا احساس .. جذبوں کو ماند نہیں پڑنے دیتا..
سنو ..!!
محبت بوڑھی نہیں ھوتی ..!!!