Monday, April 18, 2016

اک ذرا سی رنجش سے

اک ذرا سی رنجش سے
شک کی ذرد ٹہنی پر
پھول بدگمانی کے
اس طرح سے کھلتے ہیں
زندگی سے پیارے بھی
اجنبی سے لگتے ہیں
دشت بے یقینی میں
راستہ نہیں ملتا
پھول رنگ وعدوں کی
منزلیں سکڑتی ہیں
راہ مڑنے لگتی ہے
بے رخی کے گارے سے
بے دلی کی مٹی سے
فاصلے کی اینٹوں سے
اینٹ جڑنے لگتی ہے
اک ذرا سی رنجش سے
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں
معذرت کے لفظوں کو
روشنی نہیں ملتی
لذت پزیرا ئی
پھر کبھی نہیں ملتی
دوست دار لہجوں میں
سلوٹیں سی پڑتی ہیں
اک ذرا سی رنجش سے
ہاتھ چھوٹ جاتے ہیں
ساتھ چھوٹ جاتے ہیں
خواب ٹوٹ جاتے ہیں

No comments:

Post a Comment