Thursday, April 28, 2016

دل آج بھی مقروض ہے

دل آج بھی مقروض ہے

بچپن کی عیدوں کا
چاند کی دیدوں کا
وصل کی شاموں کا
دیر جاگی راتوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

ریت کے گھروندوں کا
ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا
کاغذ کے بیڑوں کا
بارش کے ریلوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

چمکتے ہوئے جگنوﺅں کا
رنگ برنگی تتلیوں کا
کمسن کھلتی کلیوں کا
نت نئی بہاروں کا

دل آج بھی مقروض ہے

کچے پکے خوابوں کا
بھولی بسری یادوں کا
کٹھی میٹھی باتوں کا
بے نام رشتوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

بن مانگی دعاﺅں کا
تسلسل سے عطاﺅں کا
بے بہا رحمتوں کا
بے شمار نعمتوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

آنکھوں کے سمندر کا
اُمنڈتے قیمتی اشکوں کا
چھلکتے انمول موتیوں کا
بھیگتے کانپتے ہونٹوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

ماں کی محبت کا
باپ کی شفقت کا
بے پناہ اُلفت کا
دونوں کی عظمت کا

دل آج بھی مقروض ہے

ہر روز کی خطاﺅں کا
چھوٹی موٹی سزاﺅں کا
ہلکی پھلکی آہوں کا
محفوظ پناہوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

اُلٹے پھلٹے لفظوں کا
ٹوٹے پھوٹے شعروں کا
ٹیری میڑی باتوں کا
بے عنوان تحریروں کا

دل آج بھی مقروض ہے

کاغذ میں لپٹے خیالوں کا
پل میں گزرے سالوں کا
سوزِعشق کے احوالوں کا
دل میں پھوٹے چھالوں کا

دل آج بھی مقروض ہے

No comments:

Post a Comment