دل آج بھی مقروض ہے
بچپن کی عیدوں کا
چاند کی دیدوں کا
وصل کی شاموں کا
دیر جاگی راتوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
ریت کے گھروندوں کا
ٹوٹے ہوئے کھلونوں کا
کاغذ کے بیڑوں کا
بارش کے ریلوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
چمکتے ہوئے جگنوﺅں کا
رنگ برنگی تتلیوں کا
کمسن کھلتی کلیوں کا
نت نئی بہاروں کا
دل آج بھی مقروض ہے
کچے پکے خوابوں کا
بھولی بسری یادوں کا
کٹھی میٹھی باتوں کا
بے نام رشتوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
بن مانگی دعاﺅں کا
تسلسل سے عطاﺅں کا
بے بہا رحمتوں کا
بے شمار نعمتوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
آنکھوں کے سمندر کا
اُمنڈتے قیمتی اشکوں کا
چھلکتے انمول موتیوں کا
بھیگتے کانپتے ہونٹوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
ماں کی محبت کا
باپ کی شفقت کا
بے پناہ اُلفت کا
دونوں کی عظمت کا
دل آج بھی مقروض ہے
ہر روز کی خطاﺅں کا
چھوٹی موٹی سزاﺅں کا
ہلکی پھلکی آہوں کا
محفوظ پناہوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
اُلٹے پھلٹے لفظوں کا
ٹوٹے پھوٹے شعروں کا
ٹیری میڑی باتوں کا
بے عنوان تحریروں کا
دل آج بھی مقروض ہے
کاغذ میں لپٹے خیالوں کا
پل میں گزرے سالوں کا
سوزِعشق کے احوالوں کا
دل میں پھوٹے چھالوں کا
دل آج بھی مقروض ہے
No comments:
Post a Comment