Friday, April 22, 2016

لکیریں اب بھی باقی ہیں

ہاتـــھوں کـــی لکیــــــروں پـــــہ
گفتگو جب چل نکلی
تب اُداس لہجے میں
میں نے اُس سے یہ کہا
نظر مُجھ کو نہیں آتا
تُمہارا نام بلکل بھی
اِن اُلجھی لکیروں میں
تب پلٹ کہ وہ بولی
لکیریں جُھوٹ ہوتی ہیں
تُمہارے ساتھ ہوں میں تو
تُمہارے پاس ہوں میں تو
ضروری تو نہیں ہوتا
مُقدر ہو لکیروں میں
یہ بے وفا لکیریں ہیں
لکیریں بس لکیریں ہیں
اعتبار مت کرنا
بے وفا لکیروں پہ
مگر وہ جُھوٹ کہتی تھی
نتجہ یہ کے اُس کا ساتھ
نہیں باقی رہا لیکن
لکیریں اب بھی باقی ہیں
لکیریں اب بھی باقی ہیں

No comments:

Post a Comment