ہاتـــھوں کـــی لکیــــــروں پـــــہ
گفتگو جب چل نکلی
تب اُداس لہجے میں
میں نے اُس سے یہ کہا
نظر مُجھ کو نہیں آتا
تُمہارا نام بلکل بھی
اِن اُلجھی لکیروں میں
تب پلٹ کہ وہ بولی
لکیریں جُھوٹ ہوتی ہیں
تُمہارے ساتھ ہوں میں تو
تُمہارے پاس ہوں میں تو
ضروری تو نہیں ہوتا
مُقدر ہو لکیروں میں
یہ بے وفا لکیریں ہیں
لکیریں بس لکیریں ہیں
اعتبار مت کرنا
بے وفا لکیروں پہ
مگر وہ جُھوٹ کہتی تھی
نتجہ یہ کے اُس کا ساتھ
نہیں باقی رہا لیکن
لکیریں اب بھی باقی ہیں
لکیریں اب بھی باقی ہیں
No comments:
Post a Comment