اندھیرا کتنا ہی گہرا ہو
سحر کی راہ میں حائل
کبھی بھی ہونہیں سکتا
سویرا ہوکے رہتا ہے
امیدوں کے سمندر میں
تلاطم آتے رہتے ہیں
سفینے ڈوبتے بھی ہیں
سفر لیکن نہیں رکتا
مسافر ٹوٹ جاتے ہیں
مگر مانجھی نہیں تھکتا
سفر طے ہوکے رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا
خدا حاضر ہے ناظر بھی
خدا ظاہر ہے منظر بھی
وہی ہے حال سے واقف
وہی سینوں کے اندر بھی
کبھی تم مانگ کر دیکھو
تمہاری آنکھ کے آنسو
یونہی ڈھلنے نہیں دے گا
تمہار آس کی گاگر
کبھی گرنے نہیں دے گا
ہوا کتنی مخالف ہو
تمہیں مڑنے نہیں دے گا
کبھی مایوس مت ہونا
دریدہ دامنوں کو وہ
رفو کرتا ہے رحمت سے
اگر کشکول ٹوٹا ہو -
تو وہ بھرتا ہے نعمت سے
کہیں یونس کے ہونٹوں پر
اگر فریاد اٹھتی ہے
کسی بنجر جزیرے پر
کدو کی بیل اگتی ہے
جو سایہ ہے اور پانی بھی
علاج ناتوانی بھی
کبھی مایوس مت ہونا
جب اسکے رحم کا ساگر
چھلک کے جوش کھاتا ہے
قہر ڈھاتا ہوا سورج
یکایک کانپ جاتا ہے
ہوا اٹھتی ہے لہرا کر
گھٹا سجدے میں گرتی ہے
جہاں دھرتی ترستی ہے
وہیں رحمت برستی ہے
ترستے ریگزاروں پر
ابر بہہ کے ہی رہتا ہے
نظر وہ اٹھ کر رہتی ہے
امر ہوکے ہی رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا
No comments:
Post a Comment