Friday, April 29, 2016

کبھی مایوس مت ہونا

اندھیرا کتنا ہی گہرا ہو
سحر کی راہ میں حائل
کبھی بھی ہونہیں سکتا
سویرا ہوکے رہتا ہے
امیدوں کے سمندر میں
تلاطم آتے رہتے ہیں
سفینے ڈوبتے بھی ہیں 
سفر لیکن نہیں رکتا
مسافر ٹوٹ جاتے ہیں
مگر مانجھی نہیں تھکتا
سفر طے ہوکے رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا

خدا حاضر ہے ناظر بھی
خدا ظاہر ہے منظر بھی
وہی ہے حال سے واقف
وہی سینوں کے اندر بھی
کبھی تم مانگ کر دیکھو
تمہاری آنکھ کے آنسو
یونہی ڈھلنے نہیں دے گا
تمہار آس کی گاگر
کبھی گرنے نہیں دے گا
ہوا کتنی مخالف ہو
تمہیں مڑنے نہیں دے گا
کبھی مایوس مت ہونا

دریدہ دامنوں کو وہ
رفو کرتا ہے رحمت سے
اگر کشکول ٹوٹا ہو -
تو وہ بھرتا ہے نعمت سے
کہیں یونس کے ہونٹوں پر
اگر فریاد اٹھتی ہے
کسی بنجر جزیرے پر
کدو کی بیل اگتی ہے
جو سایہ ہے اور پانی بھی
علاج ناتوانی بھی
کبھی مایوس مت ہونا

جب اسکے رحم کا ساگر
چھلک کے جوش کھاتا ہے
قہر ڈھاتا ہوا سورج
یکایک کانپ جاتا ہے
ہوا اٹھتی ہے لہرا کر
گھٹا سجدے میں گرتی ہے
جہاں دھرتی ترستی ہے
وہیں رحمت برستی ہے
ترستے ریگزاروں پر
ابر بہہ کے ہی رہتا ہے
نظر وہ اٹھ کر رہتی ہے
امر ہوکے ہی رہتا ہے
کبھی مایوس مت ہونا

No comments:

Post a Comment