Saturday, April 30, 2016

وہی آبلے مرے پاؤں کے

وہی آبلے مرے پاؤں کے
وہی الجھنیں دلِ زار کی
وہی جسم و جاں کی اذیتیں
سرِ بزمِ شوق ہیں جلوہ گر
انھی صورتوں کی شباہتیں
وہی کربِ ذات کے سلسلے
وہی سنگ و خشت کی بارشیں
وہی بے یقین سی منزلیں
وہی بے مراد مسافتیں
وہی شہرِ جاں کی اداسیاں
وہی نارسائی کی وحشتیں
وہی انتظار کے وسوسے
وہی نامہ بر کی وضاحتیں
وہی آزمائشیں ہجر کی
وہی خواب عہدِ وصال کے
وہی ذوق چشمِ نیاز کا
وہی رنگ عکسِ جمال کے
وہی ایک حسنِ خیال کش
وہی اک صباحتِ دلنشیں
جسے سوچیے تو قرینِ جاں
جسے دیکھیے تو کہیں نہیں
وہی رتجگوں کا خمار ہے
وہی سلوٹیں ہیں لباس کی
وہی ضابطے ہیں سماج کے
وہی التجائیں ہیں پیاس کی
وہی یادگارِ گذشتگاں
وہی سوگ مرگِ بہار کے
وہی سینہ کوبیِ حسرتاں
وہی مرثیے دلِ زار کے
وہی خار ہیں تری راہ کے
وہی آبلے مرے پاؤں کے
تری چشمِ ناز کے منتظر
وہی قافلے ہیں دعاؤں کے
وہی لا علاج سے درد ہیں
وہی بے نیاز طبیب ہیں
مرے خونِ دل پہ پلے ہوئے
وہی میرے اپنے رقیب ہیں
وہی بے مکین حویلیاں
وہی بے چراغ سے بام و در
وہی آنسوؤں کی شہادتیں
غمِ زندگی کے محاذ پر
وہی دشمنانِ سناں بہ کف
وہی دوستانِ بہانہ جُو
وہی ایک حشر قدم قدم
وہی اک تماشۂ چار سُو
وہی بادلوں کی عدالتیں
وہی بجلیوں کی گواہیاں
وہی موسموں کی نوازشیں
وہی گھونسلوں کی تباہیاں
وہی اختیار کی دہشتیں
وہی اقتدار کی مستیاں
وہی چیختے ہوئے روز و شب
وہی سونی سونی سی بستیاں
وہی سال خوردہ روایتیں
وہی کم نگاہ سے نظریے
وہی بے شعور سی منطقیں
وہی بے ثبات سے فلسفے
وہی پرچموں کی بلندیاں
وہی خوئے مشقِ سپہ گری
وہی خوں نصیب معاشرت
وہی انتہائے درندگی
وہی گردشوں کا ہجوم ہے
وہی آگہی کے عذاب ہیں
وہی دشت حدِ نگاہ تک
وہی آرزو کے سراب ہیں
وہی آنچلوں کی شکستگی
وہی پگڑیوں کے وقار ہیں
وہی عارضوں کی ہیں زردیاں
وہی حسرتوں کے مزار ہیں
اُسی سنگلاخ زمین پر
وہی مرحلے ہیں تلاش کے
وہی بین کرتی ضرورتیں
وہی گھاؤ فکرِ معاش کے
وہی رہنما ہیں کہ آج بھی
جنھیں خود تمیزِ سفر نہیں
جنھیں راستوں کا پتہ نہیں
جنھیں منزلوں کی خبر نہیں
وہی پتھروں کا غرور ہے
وہی آئنوں کا مزاج ہے
وہی منصفوں کے ہیں فیصلے
وہی بیڑیوں کا رواج ہے

No comments:

Post a Comment