Friday, April 22, 2016

شجر اپنی زمین جب چھوڑتے ہیں


سبھی کچھ تھا
جسے ہم چھوڑ کے گھر سے نکلنے کے لیے بے تاب رہتے تھے
سبھی کچھ تھا
کہ اپنے واسطے اس سر زمیں پر کچھ نہیں رکھا
درو دیوار اندر سے قفس معلوم ہوتے تھے
محبت اور نفرت تھی
جو اپنی تھی
ہوائیں، بارشیں، موسم
سبھی وہ کچھ جو ہر اک شخص کو قدرت سے ملتا ہے
وہ ہنگامے جنہیں آنکھیں ترستی ہیں
وہ اپنے لوگ
جو اب آنسوؤں کے گھر میں رہتے ہیں
مگر اس وقت جب ہم سانس بھی لیتے ہیں
گھٹن ایسی کے جیسے دم نکلتا ہو
یہی لگتا تھا
جیسے اجنبی لوگوں میں زندہ ہیں
ہمیشہ خواب کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے یہ سوچتے رہتے
کہ اپنی آنکھ جب کھولیں
تو منظر ہی بدل جائے
کسے معلوم تھا
منظر بدلنے سے وہی کردار رہتے ہیں
وہی دیوار رہتی ہے
وہی زنجیر پاوں میں
وہی تصویر آنکھوں میں
نگاہوں میں وہ سب کچھ ہے
کہ جب سرسبز شاخوں پر ہمیشہ پھول کھلتے تھے
خزاں کی رت میں بھی اک تازگی محسوس ہوتی تھی
مگر اب زندگی کاغذ کے پھولوں اور خوشبو کانچ کی بوتل کے اندر قید ہم پر مسکراتی ہے
ہمارے ہاتھ خالی ہیں مگر ذہنوں میں گزرے روز و شب کی ایک البم ہے
خبر کیا تھی
شجر اپنی زمیں جب چھوڑتے ہیں
سوکھ جاتے ہیل

No comments:

Post a Comment