سبھی کچھ تھا
جسے ہم چھوڑ کے گھر سے نکلنے کے لیے بے تاب رہتے تھے
سبھی کچھ تھا
کہ اپنے واسطے اس سر زمیں پر کچھ نہیں رکھا
درو دیوار اندر سے قفس معلوم ہوتے تھے
محبت اور نفرت تھی
جو اپنی تھی
ہوائیں، بارشیں، موسم
سبھی وہ کچھ جو ہر اک شخص کو قدرت سے ملتا ہے
وہ ہنگامے جنہیں آنکھیں ترستی ہیں
وہ اپنے لوگ
جو اب آنسوؤں کے گھر میں رہتے ہیں
مگر اس وقت جب ہم سانس بھی لیتے ہیں
گھٹن ایسی کے جیسے دم نکلتا ہو
یہی لگتا تھا
جیسے اجنبی لوگوں میں زندہ ہیں
ہمیشہ خواب کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے یہ سوچتے رہتے
کہ اپنی آنکھ جب کھولیں
تو منظر ہی بدل جائے
کسے معلوم تھا
منظر بدلنے سے وہی کردار رہتے ہیں
وہی دیوار رہتی ہے
وہی زنجیر پاوں میں
وہی تصویر آنکھوں میں
نگاہوں میں وہ سب کچھ ہے
کہ جب سرسبز شاخوں پر ہمیشہ پھول کھلتے تھے
خزاں کی رت میں بھی اک تازگی محسوس ہوتی تھی
مگر اب زندگی کاغذ کے پھولوں اور خوشبو کانچ کی بوتل کے اندر قید ہم پر مسکراتی ہے
ہمارے ہاتھ خالی ہیں مگر ذہنوں میں گزرے روز و شب کی ایک البم ہے
خبر کیا تھی
شجر اپنی زمیں جب چھوڑتے ہیں
سوکھ جاتے ہیل
Friday, April 22, 2016
شجر اپنی زمین جب چھوڑتے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment