Friday, April 22, 2016

میرے ہاتھوں کی لکیروں کو بنانے والے

میرے ہاتھوں کی لکیروں کو بنانے والے
ان لکیروں پہ مقدر کو چلانے والے

کیا ضروری تھا مقدر میں میرے غم لکھنا
ساتھ پھولوں کے کانٹوں کو لگانے والے

اب تو عادت سی بنا لی ہے ہم نے اپنی
تم ہو روٹھنے والے ، ہم منانے والے

کاش تم نے بھی کبھی ہم کو پکارا ہوتا
ہم تیرا نام ہونٹوں پہ سجانے والے

پھول چنتے ہیں سبھی کانٹے کوئی چنتا نہیں
ہم ہیں کانٹوں کو پلکوں سے اٹھانے والے

ان کے دل میں بھی کبھی درد تو ہوتا ہو گا
وہ جو ہوتے ہیں اوروں کو ہنسانے والے

تم چاہو بھی تو ہم کو نہ بھلا پا ؤ گے
ہم شناساؤں میں تیرے ہیں پرانے والے

چھوڑ دی محفل دنیا بھی اے خالد ہم نے
پھر بھی خوش ہوتے نہیں یہ زمانے والے

No comments:

Post a Comment