Friday, April 29, 2016

طاغوت وقت کا خط

طاغوت وقت کا خط
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حسن یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہوں حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکر عمر عزیز ہے 
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیر شہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کے دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیر شہر کا ذکر ہو -
نہ غنیم وقت کی بات ہو
کہیں تارتار ہوں عصمتیں
مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
مرے جان نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر 
مرے عسکری مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے
کبھی میرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا
وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے
وہ تو مرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو
انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جاں نثاروں کو حکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیر شہر کا حکم ہے 
بنااعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہے
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں 
سبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے نہیں کوئی واسطہ
انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
انہیں زر کا سکہ اچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
انہیں کال کوٹھری میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیان کرے
وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بھوک پیاس کی ماردو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمین میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سے نکال دو

شاعر کا جواب
جو ہیں بے خطار وہی
یہ عجیب طرز نصاب ہے
جو گناہ کرے وہ معتبر
یہ عجیب روز حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرعتاب ہے
کہیں پر شکستہ ہے فاختہ 
کہیں زخم زخم گلاب ہے
مرے دشمنوں کو جواب دو 
نہیں غاصبوں پر شفیق میں
مرے حاکموں کو خبر کرو 
نہیں آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوف مرگ نہیں زرا
میرا حرف حرف ہے ، لہولہو
میرا لفظ لفظ ہے آبلہ

5 comments: