طاغوت وقت کا خط
مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عجلتوں میں لکھا ہوا
کہیں رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ
مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو حسن یار کا تذکرہ
تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہوں حاکموں کو برا بھلا
تمہیں فکر عمر عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو
جو امیر شہر کہے تمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو
کوئی واردات کے دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو
نہ امیر شہر کا ذکر ہو -
نہ غنیم وقت کی بات ہو
کہیں تارتار ہوں عصمتیں
مرے دوستوں کو نہ دوش دو
جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا نام لو
کسی تاک میں ہیں لگے ہوئے
مرے جان نثار گلی گلی
ہیں مرے اشارے کے منتظر
مرے عسکری مرے لشکری
جو تمہارے جیسے جوان تھے
کبھی میرے آگے رکے نہیں
انہیں اس جہاں سے اٹھا دیا
وہ جو میرے آگے جھکے نہیں
جنہیں جان و مال عزیز تھے
وہ تو مرے ڈر سے پگھل گئے
جو تمہاری طرح اٹھے بھی تو
انہیں بم کے شعلے نگل گئے
مرے جاں نثاروں کو حکم ہے
کہ گلی گلی یہ پیام دیں
جو امیر شہر کا حکم ہے
بنااعتراض وہ مان لیں
جو مرے مفاد کے حق میں ہے
وہی عدلیہ میں رہا کریں
مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے وہ ہوا کریں
جنہیں مجھ سے نہیں کوئی واسطہ
انہیں اپنے حال پر چھوڑ دو
وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
انہیں زر کا سکہ اچھال دو
جنہیں اپنے درش عزیز ہوں
انہیں کال کوٹھری میں ڈال دو
جو مرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو مرا امام بیان کرے
وہی دین ہے سبھی جان لو
جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بھوک پیاس کی ماردو
کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے زمین میں اتار دو
جو مرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں خوب مال و منال دو
جو مرے خلاف ہیں بولتے
انہیں نوکری سے نکال دو
شاعر کا جواب
جو ہیں بے خطار وہی
یہ عجیب طرز نصاب ہے
جو گناہ کرے وہ معتبر
یہ عجیب روز حساب ہے
یہ عجیب رت ہے بہار کی
کہ ہر ایک زیرعتاب ہے
کہیں پر شکستہ ہے فاختہ
کہیں زخم زخم گلاب ہے
مرے دشمنوں کو جواب دو
نہیں غاصبوں پر شفیق میں
مرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں آمروں کا رفیق میں
مجھے زندگی کی ہوس نہیں
مجھے خوف مرگ نہیں زرا
میرا حرف حرف ہے ، لہولہو
میرا لفظ لفظ ہے آبلہ
who is the poet?
ReplyDeleteThis comment has been removed by the author.
ReplyDeleteName of the poet please?
ReplyDeleteFaraz.
ReplyDeleteڈاکٹر سید صغیر صفیؔ
ReplyDelete