حیات اک نظم ہوتی جو
میں اسکو خوبصورت استعار وں سے سجا لیتا
قزح کے رنگ سارے حسیں لفظوں میں بهر دیتا
گل و گلزار کر دیتا
رنگ و بو سے بھر دیتا
فلک سے کہکشاں لاتا
زمیں سے تتلیاں بھرتا
چمن کے پھول سارے ،،آسمان کے چاند تارے
لفظوں میں مقید کر کے نظموں میں چھپا لیتا
میں ایسا کر نہی سکتا
کہ ایسا ہو نہی سکتا
حقیقت تلخ ہے اسکی
میرے لوگوں کی آہیں ہیں
بھوک ہے افلاس ہے ،،بڑے بیدرد نوحے ہیں
جسم زخمو ں سے گھائل ہے
روح دشت و بیاباں ہے
بلکتے بھوک سے بچے
لباس اور گھر کو جب ترسیں
سڑک په بے اماں جیون
علم کے نور کو ترسے
یہ بستی اسی بستی ہے
جہاں په موت سستی ہے
میرے ہاتھوں میں گر مقدر کا قلم ہوتا
میں ان بچو ں کی آنکھوں میں علم کا نور بھر دیتا
نحیف و ناتواں بوڑھوں کو اپنے گھر کی چھت دیتا
میری بیٹی کے ہاتھوں په سرخ رنگ حنا ہوتا
میں انکو دیکھ کے ہنستا ،،کوئی اچھی نظم کہتا
مگر افسوس
مگر افسوس ،،،میں ایسا کر نہی سکتا
میرا دل خون روتا ہے
میری آنکھوں میں پانی ہے
بہت ہی تلخ نوع انسان کی زندگانی ہے
Monday, April 18, 2016
حیات اک نظم ہوتی جو
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment