ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﻮﮞ؟
ﮨﻮﺍﺋﮯ ﺻﺒﺢ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎ ﺷﺎﻡ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺳﺘﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ
ﺟﮭﺠﮭﮑﺘﯽ ﺑﻮﻧﺪﺍ ﺑﺎﻧﺪﯼ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺗﯿﺰ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﺭﻭ ﭘﮩﻠﯽ ﭼﺎﻧﺪﻧﯽ ﻣﯿﮟ
ﯾﺎ ﮐﮧ ﭘﮭﺮ ﺗﭙﺘﯽ ﺩﻭﭘﮩﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ
ﺑﮩﺖ ﮔﮩﺮﮮ ﺧﯿﺎﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮐﮧ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺳﺮﺳﺮﯼ ﺩُﮬﻦ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﻮﮞ؟
ﮨﺠﻮﻡِ ﮐﺎﺭ ﺳﮯ ﮔﮭﺒﺮﺍ ﮐﮯ
ﺳﺎﺣﻞ ﮐﮯ ﮐﻨﺎﺭﮮ ﭘﺮ
ﮐِﺴﯽ ﻭﯾﮏ ﺍﯾﻨﮉ ﮐﺎ ﻭﻗﻔﮧ
ﮐﮧ ﺳﮕﺮﭦ ﮐﮯ ﺗﺴﻠﺴﻞ ﻣﯿﮟ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺍﻧﮕﻠﯿﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮯ ﺍﺭﺍﺩﮦ ﺭﯾﺸﻤﯿﮟ ﻓﺮﺻﺖ؟
ﮐﮧ ﺟﺎﻡِ ﺳُﺮﺥ ﺳﮯ
ﯾﮑﺴﺮ ﺗﮩﯽ
ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺳﮯ
ﺑﮭﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺧﻮﺵ ﺁﺩﺍﺏ ﻟﻤﺤﮧ
ﮐﮧ ﺍِﮎ ﺧﻮﺍﺏِ ﻣﺤﺒﺖ ﭨﻮﭨﻨﮯ
ﺍﻭﺭ ﺩُﻭﺳﺮﺍ ﺁﻏﺎﺯ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺎﺑﯿﻦ ﺍﮎ ﺑﮯ ﻧﺎﻡ ﻟﻤﺤﮯ ﮐﯽ ﻓﺮﺍﻏﺖ؟
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﻮﮞ؟
Sunday, March 27, 2016
ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﮞ ﭘﺮ ﮨﻮﮞ؟
Tuesday, March 22, 2016
محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔
حدود جاں سے گزر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔
محبتوں کی نظر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔۔۔
ابھی تو پھرتے ھو دوستوں میں عزیز کوئ جدا نھیں ھے۔۔۔
کوئ ادھر سے ادھر ھوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔
یہ خوش نصیبی ہے شہر بھر میں تمھارا دشمن نھیں ھے کوئ۔۔۔۔
کبھی کسی کا جو ڈر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔
یہ فاصلہ سا ابھی تلک جو ہمارے دونوں کے درمیاں ھے۔۔۔۔
یہ فاصلہ مختصر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اھی محبت نہیں ہوئ تو کچھ اس لیے مسکرا رہے ہو۔۔۔۔
کسی کی بانہوں میں گھر ھوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔
محبتوں میں تو پتھروں کو بھی موم ہوتے سنا ہے لیکن۔۔۔۔
تمھارے دل پر اثر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔
وہ جس کی خاطر زمانے بھر کو بنا رہے ہو تم اپنا دشمن۔۔۔
وہی نہ اپنا اگر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔
یہ کیا بچھڑنا کے شام ہوتے اپنے پیاروں میں لوٹ آنا۔۔۔۔
کبھی جو لمبا سفر ہوا تو محبتوں کا پتا چلے گا۔۔۔۔
محبت مر سکتی ہے
محبت مر سکتی ہے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
جسے بھی چاہتےہو تم
سدا عزت اسے دینا
وگرنہ چند لمحوں میں
محبت چھوڑ جاتی ہے
صدائیں عمر بھر بھی دو
وہ مڑ کر نہیں تکتی
بھلا کیوں ایسا ہوتا ہے؟
کہ مردے آنکھیں رکھتے ہیں
مگر کھولا نہیں کرتے
پکارو لاکھ ان کو تم
صدائیں تو وہ سنتے ہیں
لب کھولا نہیں کرتے
محبت جب کبھی کرنا
تو اتنا سوچ لینا تم
محبت مر بھی سکتی ہے
ملٹی ڈائی مینشن
ہم تو یارو گیان کی اونچی دیواروں پہ بیٹھے ہیں
اور یہاں سے نیچے اک بستی میں بونے رہتے ہیں
چھوٹے چھوٹے گھر گھروندے
چھوٹے انسانوں کی بستی
چھوٹے خواب جزیرے ہیں
سوچ کی بونی جاگیریں ہیں
صبح صبح جب اس بستی کے سارے بونے
اپنے بونے خواب
کمر پہ لاد کے چلنے لگتے ہیں
ہم ہنستے ہیں
ہم جو یارو گیان کی اونچی دیواروں پہ بیٹھے ہیں
ہم ہنستے ہیں
کیا ممکن ہے کسی مینارے پر بیٹھے
کچھ اور گیانی لوگ ہوں ایسے
جن کے آگے ہم بونے ہوں
خواب ہمارے بونے ہوں
گیان کی یہ اونچی دیواریں
اونچے اونچے خواب ہمارے
ان کے آگے بونے ہوں
ہم جب نیچے بونوں کی بستی کو دیکھ کے ہنستے ہوں
ممکن ہے نا اوپر والے ہم کو دیکھ کے ہنستے ہوں؟
"ہم" ہی ہنستے نہیں ہیں یارو
"ہم" ہی اونچے نہیں ہیں
"ہم" ہی سچے نہیں ہیں۔
ممکن ہے نا
مجھے وداع کر
مجھے وداع کر
اے میری ذات، مجھے وداع کر
وہ لوگ کیا کہیں گے، میری ذات،
لوگ جو ہزار سال سے
مرے کلام کو ترس گئے؟
مجھے وداع کر،
میں تیرے ساتھ
اپنے آپ کے سیاہ غار میں
بہت پناہ لے چُکا
میں اپنے ہاتھ پاؤں
دل کی آگ میں تپا چکا!
مجھے وداع کر
کہ آب و گِل کے آنسوؤں
کی بے صدائی سُن سکوں
حیات و مرگ کا سلامِ روستائی سن سکوں!
مجھے وداع کر
بہت ہی دیر _______ دیر جیسی دیر ہوگئی ہے
کہ اب گھڑی میں بیسوی صدی کی رات بج چُکی ہے
شجر حجر وہ جانور وہ طائرانِ خستہ پر
ہزار سال سے جو نیچے ہال میں زمین پر
مکالمے میں جمع ہیں
وہ کیا کہیں گے؟ میں خداؤں کی طرح _____
ازل کے بے وفاؤں کی طرح
پھر اپنے عہدِ ہمدمی سے پھر گیا؟
مجھے وداع کر، اے میری ذات
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ ذہنِ ناتمام کی مساحتوں میں پھر
ہر اس کی خزاں کے برگِ خشک یوں بکھر گئے
کہ جیسے شہرِ ہست میں
یہ نیستی کی گرد کی پکار ہوں ____
لہو کی دلدلوں میں
حادثوں کے زمہریر اُتر گئے!
تو اپنے روزنوں کے پاس آکے دیکھ لے
کہ مشرقی افق پہ عارفوں کے خواب ____
خوابِ قہوہ رنگ میں _____
امید کا گزر نہیں
کہ مغربی افق پہ مرگِ رنگ و نور پر
کِسی کی آنکھ تر نہیں!
مجھے وداع کر
مگر نہ اپنے زینوں سے اُتر
کہ زینے جل رہے ہیں بے ہشی کی آگ میں ____
مجھے وداع کر، مگر نہ سانس لے
کہ رہبرانِ نو
تری صدا کے سہم سے دبک نہ جائیں
کہ تُو سدا رسالتوں کا بار اُن پہ ڈالتی رہی
یہ بار اُن کا ہول ہے!
وہ دیکھ، روشنی کے دوسری طرف
خیال ____ بھاگتے ہوئے
تمام اپنے آپ ہی کو چاٹتے ہوئے!
جہاں زمانہ تیز تیز گامزن
وہیں یہ سب زمانہ باز
اپنے کھیل میں مگن
جہاں یہ بام و دَر لپک رہے ہیں
بارشوں کے سمت
آرزو کی تشنگی لیے
وہیں گماں کے فاصلے ہیں راہزن!
مجھے وداع کر
کہ شہر کی فصیل کے تمام در ہیں وا ابھی
کہیں وہ لوگ سو نہ جائیں
بوریوں میں ریت کی طرح _____
مجھے اے میرے ذات،
اپنے آپ سے نکل کے جانے دے
کہ اس زباں بریدہ کی پکار ____ اِس کی ہاو ہُو ___
گلی گلی سنائی دے
کہ شہرِ نو کے لوگ جانتے ہیں
(کاسہء گرسنگی لیے)
کہ اُن کے آب و نان کی جھلک ہے کون؟
مَیں اُن کے تشنہ باغچوں میں
اپنے وقت کے دُھلائے ہاتھ سے
نئے درخت اگاؤں گا
میَں اُن کے سیم و زر سے ____ اُن کے جسم و جاں سے ____
کولتار کی تہیں ہٹاؤں گا
تمام سنگ پارہ ہائے برف
اُن کے آستاں سے مَیں اٹھاؤں گا
انہی سے شہرِ نو کے راستے تمام بند ہیں ____
مجھے وداع کر،
کہ اپنے آپ میں
مَیں اتنے خواب جی چکا
کہ حوصلہ نہیں
مَیں اتنی بار اپنے زخم آپ سی چُکا
کہ حوصلہ نہیں _____
مگر کچھ کر نہیں سکتا
ارادہ روز کرتا ہوں ، مگر کچھ کر نہیں سکتا
میں پیشہ ور فریبی ہوں ، محبت کر نہیں سکتا
بُرے ہو یا کہ اچھے ہو ، مجھے اِس سے نہیں مطلب
مجھے مطلب سے مطلب ہے ، میں تم سے لڑ نہیں سکتا
یہاں ہر دوسرا انساں خُدا خود کو کہاتا ہے
خُدا بھی وہ کہ جو اپنی ہی جھولی بھر نہیں سکتا
میں تم سے صاف کہتا ہوں ! مجھے تم سے نہیں اُلفت
فقط لفظی محبت ہے میں تم پہ مر نہیں سکتا
تمہاری بات سُن لی ہے، بہت دُکھ کی کہانی ہے
سنو تم بعد میں آنا ! ابھی کچھ کر نہیں سکتا
محبت کی مسافت نے بہت زخمی کیا مجھ کو
ابھی یہ زخم بھرنے ہیں، میں آہیں بھر نہیں سکتا
صنم تیری محبت نے مجھے نفرت سکھائی ہے
مگر اب اجنبی ہو تم، میں نفرت کر نہیں سکتا
بھلے میں نے نہیں چاہا، مگر تم نے تو چاہا ہے
تمہاری یاد کو دل سے تو باہر کر نہیں سکتا
نجانے آدمی کیوں آدمی سے خوف کھاتا ہے
جو اپنے رب سے ڈرتا ہو کسی سے ڈر نہیں سکتا
ارے او عشق ! چل جا کام کر کس کو بلاتا ہے ؟
حُسن بازار میں بِکتا ہے سُولی چڑ ھ نہیں سکتا
یہاں ہر ایک چہرے پر الگ تحریر لکھی ہے
مری آنکھوں میں آنسو ہیں ابھی کچھ پڑھ نہیں سکتا
میں اپنی رات کی زُلفوں میں خود چاندی سجاتا ہوں
میں اس کی مانگ میں وعدوں کے ہیرے جڑ نہیں سکتا
بھلے جھوٹا، منافق ہوں، بہت دھوکے دیے لیکن
مرا کچھ وقت باقی ہے، زمیں میں گڑ نہیں سکتا
میں اُس گھر کا مقیمی ہوں جسے اوقات کہتے ہیں
میں اپنی حد میں رہتا ہوں سو آگے بڑھ نہیں سکتا
خُدا ہوں نہ ولی ہوں میں ، فقط رندِ علیؔ ہوں میں
میں کچھ بھی دے نہیں سکتا، میں کچھ بھی کر نہیں سکتا
کچھ شعر رہتے ہیں مگر لکھنے نہیں ہر گز
کسی کی لاج رکھنی ہے، سو ظاہر کر نہیں سکتا
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
-
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
ابھی تو بات لمہوں تک ہے، سالوں تک نہیں آئی
ابھی مسکانوں کی نوبت بھی، نالوں تک نہیں آئی
ابھی تو کوئی مجبوری، خیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو گرد پیروں* تک ہے، بالوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
-
ابھی کاجل کی دوری، سرخ گالوں تک نہیں آئی
زباں دانتوں تلک ہے، زہر پیالوں تک نہیں آئی
ابھی تو مشکِ کستوری، غزالوں تک نہیں آئی
ابھی رودادِ بےعنواں ہمارے درمیاں ہے، دنیا والوں تک نہیں آئی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
-
ابھی نزدیک ہیں گھر اور منزل دور ہے اپنی
مبادا نار ہوجائے یہ ہستی نور ہے اپنی
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
-
یہ رستہ پیار کا رستہ
رسن کا دار کا رستہ
بہت دشوار ہے جاناں
کہ اس رستے کا ہر ذرہ بھی کہسار ہے جاناں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
چلو اک فیصلہ کرنے شجر کی اوٹ جاتے ہیں
-
میرے بارے ناں کچھ سوچو
مجھے تو ساتھ تمہارے امر ہونے کی حسرت ہے
مجھے طے کرنا آتا ہے یہ رسن کا دار کا رستہ
یہ آسیبوں بھرا رستہ
یہ اندھی غار کا رستہ
تمہارا نرم و نازک ہاتھ میرے ہاتھ میں ہو تو میں یہ سمجھوں
کہ جیسے دو جہاں ہوں میری مُٹھی میں
تمہارا قُرب ہو تو مشکلیں کافور ہو جائیں
یہ اندھے اور کالے راستے پُر نُور ہو جائیں
تمہارے گیسوؤں کی چھاؤں مل جائے، تو سورج سے الجھنا بات ہی کیا یے
اُٹھا لو اپنا سایا تو میری اوقات ہی کیا ہے
مجھے معلوم ہے اتنا کہ دیامِ زندگی پوشیدہ ہے ان چار قدموں میں
بُہت سی راحتیں مضمرِ ہیں اِن دشوار رستوں میں
-
میرے بارے ناں کچھ سوچو
تم اپنی بات بتلاؤ
کہو تو چلتے رہتے ہیں
کہو تو لوٹ جاتے ہیں
گہرا سناٹا
اتنا گہرا سناٹا ھے
جیسے کوئی بول رھا ھے
اے انکار کے لہجے والے
میں نے تجھ سے کیا مانگا ھے
باھم موت کا وعدہ چھوڑو
کون کسی کے ساتھ جیا ھے ؟؟
توڑنے والے کیا توڑے گا
تیرا میرا رشتہ کیا ھے ؟؟
پیڑ تیمم کرنے کو ھیں
وقتِ نمازِ استسقا ھے
کھلتے پھول اور کھیلتے بچے
دیکھ کے کتنا ڈر لگتا ھے
سارے جگ کی خیر ہو یا رب
کتنے زور سے دل دھڑکا ھے
دردوں نے تو زندہ رکھا
بے دردوں نے مار دیا ھے
کیسا کمسن درد ھے میرا
آدھی رات کو جاگ اٹھا ھے
یاد آتا ھے کم کم لیکن
یاد آۓ تو دل دکھتا ھے
الف , لام اور میم نے ملکر
کیسا الم تخلیق کیا ھے
اے مجھ سے نہ ملنے والے
میں نے خود کو چھوڑ دیا ھے
درد کی کوئی انت نہیں
تو صبر کا کیسا پیمانہ ھے
اکیلے ہم
لیکن
اکیلے ہم اکیلے تم
یونہی جیتے
تو صدیاں کاٹ دیتے
شاید اپنے دل میں
خود کو خواہشوں کے ساتھ
دفنا کر
کسی کے ناپسندیدہ
بدن کو
اپنے اوپر اوڑھ لیتے جانے
ایسا کیوں ہوا
کیسے ہوا
جنگل پہ چھایا ابر
اپنا رخ بدل کر
تپتے صحرا کے بدن پر
پھٹ پڑا
نخل تمنا میں
ذرا سی زندگی
آ تو گئی
لیکن!
محبت کی یہ اندھی بارشیں
آخر کہاں تک
پیاسی تنہائی کو
جل تھل کرنے والی ہیں
سب محبت کا اک پہر ہے
یہ جوپلکوں پہ رم جھم ستاروں کا میلہ سا ہے
یہ جو تیرے بنا کوئی اتنا اکیلا سا ہے
زندگی تیری یادوں سے مہکا ہوا شہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے۔۔۔!!
ساحلوں پہ گھروندے بنائے تھے ہم نے۔۔تمہیں یاد ہے؟
رنگ بارش میں کیسے اڑائے تھے ہم نے۔۔تمہیں یاد ہے؟
جانے کس کے لیئے گھر سجائے تھے ہم نے۔۔تمہیں یاد ہے؟
کوئی خوشبو کا جھونکا ادھر آ نکلتا کہیں
گم ہے نیندوں کے صحرا میں خوابوں کا رستہ کہیں
ہر خوشی آتے جاتے ہوئے وقت کی لہر ہے
زندگی دھوپ چھاؤں کا اک کھیل ہے۔۔بھیڑ چھٹتی نہیں
اور اسی کھیل میں دن گزرتا نہیں۔۔رات کٹتی نہیں
پیار کرتے ہوئے آدمی کی عمر ۔۔۔کبھی گھٹتی نہیں
دل کی دہلیز پر عکسِ روشن تیرے نام سے
رت جگے آئینوں میں کھلے ہیں کہیں شام سے
ایک دریا ہے چاروں طرف درمیاں لہر ہے
سب محبت کا اک پہر ہے
Monday, March 21, 2016
اتنا گہرا سناٹا ھے
اتنا گہرا سناٹا ھے
جیسے کوئی بول رھا ھے
اے انکار کے لہجے والے
میں نے تجھ سے کیا مانگا ھے
باھم موت کا وعدہ چھوڑو
کون کسی کے ساتھ جیا ھے ؟؟
توڑنے والے کیا توڑے گا
تیرا میرا رشتہ کیا ھے ؟؟
پیڑ تیمم کرنے کو ھیں
وقتِ نمازِ استسقا ھے
کھلتے پھول اور کھیلتے بچے
دیکھ کے کتنا ڈر لگتا ھے
سارے جگ کی خیر ہو یا رب
کتنے زور سے دل دھڑکا ھے
دردوں نے تو زندہ رکھا
بے دردوں نے مار دیا ھے
کیسا کمسن درد ھے میرا
آدھی رات کو جاگ اٹھا ھے
یاد آتا ھے کم کم لیکن
یاد آۓ تو دل دکھتا ھے
الف , لام اور میم نے ملکر
کیسا الم تخلیق کیا ھے
اے مجھ سے نہ ملنے والے
میں نے خود کو چھوڑ دیا ھے
درد کی کوئی انت نہیں
تو صبر کا کیسا پیمانہ ھے ؟
Sunday, March 20, 2016
چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
ميرے خدايا
ميں زندگي کے عذاب لکھوں
کہ خواب لکھوں
يہ ميرا چہرہ، يہ ميري آنکھيں
بُجھے ہوئے سے چراغ جيسے
جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
جنہوں نے پيماں کيے تھے مجھ سے
رفاقتوں کے، محبتوں کے
کہا تھا مجھ سے
کہ اے مسافر رِہ وفا کے
جہاں بھي جائے گا
ہم بھي آئيں گے ساتھ تيرے
بنيں گے راتوں ميں چاندني ہم
تو دن ميں تارے بکھير ديں گے
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
وہ اپنے پيماں
رفاقتوں کے، محبتوں کے
شکست کرکے
نہ جانے اب کس کي رہ گزر کا
مينارہِ روشني ہوئے ہيں
مگر مسافر کو کيا خبر ہے
وہ چاند چہرہ تو بجھ گيا ہے
ستارہ آنکھيں تو سو گئي ہيں
وہ زلفيں بے سايہ ہو گئيں ہيں
وہ روشني اور وہ سائے مري عطا تھے
سو مري راہوں ميں آج بھي ہيں
کہ ميں مسافر رہِ وفا کا
وہ چاند چہرہ، ستارہ آنکھيں
وہ مہرباں سايہ دار زلفيں
ہزاروں چہروں، ہزاروں آنکھوں، ہزاروں زلفوں کا
ايک سيلابِ تند لے کر
ميرے تعاقب ميں آرہے ہيں
ہر ايک چہرہ ہے چاند چہرہ
ہيں ساري آنکھيں ستارہ آنکھيں
تمام ہيں مہرباں سايہ دار زلفيں
ميں کِس کو چاہوں، ميں کس کو چُوموں
ميں کس کے سايہ ميں بيٹھ جاؤں
بچوں کہ طوفاں ميں ڈوب جاؤں
کہ ميرا چہرہ، نہ ميري آنکھيں
ميرے خدايا ميں زندگي کے عذاب لکھوں، کہ خواب لکھوں
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺟﮕﻨﻮ ﮨﻮﮞ،ﭘﺮﻧﺪﮮ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﮨﻮﮞ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﭘﮭﺮ ﻣﭩﮭﯿﻮﮞ ﺳﮯ ،ﺍﻭﺭ ﻗﻔﺲ ﺳﮯ
ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﻃﻠﺐ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﻗﯿﺪﯼ ﺑﻨﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻧﮧ ﮨﯽ ﻣﻘﯿﺪ ﮐﺮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺑﻨﺪﺵ ﺳﮯ ﺭﮨﺎ
ﮨﻮﻧﺎ
ﻣﺤﺒﺖ ﻧﺎﻡ ﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﻗﻔﺲ ﺳﮯ ﺁﺭﺯﻭ
ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺩﯾﻨﺎ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﺮﻭ ﺗﻢ ﺑﮭﯽ
ﭘﺮﻧﺪﻭﮞ ﮐﻮ ﺭﮨﺎ ﮐﺮﺩﻭ
ﺍﻭﺭ ﻣﭩﮭﯽ ﮐﮭﻮﻝ ﮐﺮﻧﻨﮭﮯ ﺳﮯ ﺟﮕﻨﻮﮐﻮ
ﺍﮌﺍﮈﺍﻟﻮ
ﺭﮨﺎ ﺍﻧﺴﺎﻥ
ﻭﮦ ﺑﮯﭼﺎﺭﮦ
ﺭﮨﺎ ﮨﻮﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﮯ
ﮐﺮﺏ ﮐﺎ،ﺭﻧﺞ ﻭ ﺍﻟﻢ ﮐﺎ، ﺭﻭﺯﮔﺎﺭ ﺯﻧﺪﮔﯽ
ﮐﺎ،ﺍﻭﺭﺟﺒﺮ ﮐﺎ،
ﻭﮦ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺟﯿﻠﻮﮞ ،ﮐﺌﯽ
ﻧﻔﺴﻮﮞ ،ﮐﺌﯽ
ﻗﻔﺴﻮﮞ ﮐﺎ ﻗﯿﺪﯼ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ ﺁﺯﺍﺩ ﮨﺮ ﮐﺮ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎﮞ
ﺟﺎﺋﮯ؟
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﮎ ﮐﮭﮍﮐﯽ ﮨﯽ ﺳﮩﯽ
ﮐﮭﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﭼﻠﻮ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺳﮩﯽ
ﺗﺎﺯﮦ ﮨﻮﺍ ﻣﻞ ﺗﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﯽ
ﺳﻨﻮ ﺟﻦ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮨﻮ ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺁﺯﺍﺩ ﮐﺮﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﻗﻔﺲ ﺳﮯ، ﺁﺭﺯﻭﺋﮯ ﻃﻠﺐ ﺳﮯ
محبت میں اثاثہ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﭼﺸﻢِ ﺣﯿﺮﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﯿﮟ ﭨﮩﺮﺍ ﮬﻮﺍ ﺁﻧﺴﻮ
ﻟﺒﻮﮞ ﭘﺮ ﺍﻥ ﮐﮩﯽ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﭘﮭﯿﻼ ﮬﻮﺍ ﺟﺎﺩﻭ
ﺑﮩﺖ ﺑﮯ ﺳﺎﺧﺘﮧ ﮬﻨﺴﺘﮯ ﮬﻮﮰ
ﺧﺎﻣﻮﺵ ﮬﻮ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﺍﮎ ﮬﻠﮑﯽ ﺳﯽ ﺑﮯ ﭼﯿﻨﯽ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﮬﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﮐﭩﻮﺭﯼ ﻣﯿﮟ
ﺳﻨﮩﺮ ﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﺎ ﺟﮕﻨﻮ
ﮔﻼﺑﯽ ﺷﺎﻡ ﮐﯽ ﺩﮬﻠﯿﺰ ﭘﮧ ﺭﮐﮭﺎ ﮬﻮﺍ
ﺍﮎ ﺭﯾﺸﻤﯽ ﻟﻤﺤﮧ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻧﺮﻡ ﺳﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻣﮩﮑﺎ ﮬﻮﺍ
ﺍﮎ ﺷﺒﻨﻤﯽ ﺟﮭﻮﻧﮑﺎ
" ﻣﺤﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺛﺎﺛﮯ ﮬﯿﮟ۔
Saturday, March 19, 2016
محبت
محبت !
مجھے تم سے محبت ہے
بہت آسان ہے کہنا
بہت آسان ہے کہنا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر
کیا جانتے ہو تم .....؟
محبت کے تقاضے ہیں
محبت کے تقاضوں کو
تمہیں پورا بھی کرنا ہے
یہ بس اقرار کے چند حرف
چند الفاظ چاہت کے
مجھے تم سے محبت ہے
بہت آسان ہے کہنا
محبت سوچ ہے احساس ہے
اک بوجھ ہے دل کا
محبت اک شرارت ہے
محبت اک شکایت ہے
یہ انہونی حکایت ہے
اسے تم کھیل مت سمجھو
محبت کے تقاضے ہیں
محبت کے تقاضوں کو
تمہیں پورا بھی کرنا ہے
مگر کیا جانتے ہو تم
محبت کی کہانی میں
بڑی بے چین راتیں ہیں
بڑی بے درد گھاتیں ہیں
محبت اک عجوبہ ہے
محبت کو سمجھنے میں
ابھی کچھ دیر باقی ہے
ابھی کچھ درد سہنے ہیں
ابھی کچھ غم بھی آنے ہیں
مجھے تم سے محبت ہے
بہت آسان ہے کہنا
بہت آسان ہے کہنا
مجھے تم سے محبت ہے
مگر
کیا جانتے ہو تم
کبھی یوں بھی ھو
کبھی یوں بھی ھو
تیرے ساتھ میں
ھرے پانیوں میں سفر کروں
ھو ھوا بھی اور مزاج کی
چلے بادبان سے روٹھ کر،
کہیں دور لے چلے کشتیاں
کہیں دور کھیل ہی کھیل میں
ھوا ساحلوں کے فریب میں
کہیں سانس لے تو قیام ھو
ھوا سانس لے تو قیام ھو ۔۔۔۔.!!
کسی آبشار کی اوٹ میں
جہاں چاند بھی لگے موم سا
جہاں آہٹیں بھی کوئی نا ھوں
وہاں ایک شب یوں بسر کریں
کہ پلوں میں صدیاں گزار دیں
نہ شمار صدیوں میں سال کا
نا ھوں سال ماہ سے آشنا
ھمیں واپسی کا خیال ھو
ھمیں واپسی کا خیال ھو ،۔۔!!
تو ھو کاش یوں ،۔۔۔، تو ھو کاش یوں
سبھی بادباں ھوں پھٹے ھوئے
کسی راستے کا نشاں نا ھو
!!__کبھی یوں بھی ھو ____!!
خوابوں کے بیوپاری
ہم خوابوں کے بیوپاری تھےپر اس میں ہوا نقصان بڑا
کچھ بخت میں ڈھیروں کالک تھی کچھ غضب کا کال پڑا
ہم راکھ لئے ہیںجھولی میںاور سر پہ ہے ساہوکار کھڑا
جب دھرتی صحرا صحرا تھی ہم دریا دریا روئے تھے
جب ہاتھ کی ریکھائیں چُپ تھیں اور سُرسنگیت میں کھوئے تھے
تب ہم نے جیون کھیتی میں کچھ خواب انوکے بوئے تھے
کچھ خواب سجل مسکانوں کےکچھ بول بہت دیوانوں کے
کچھ نیر و وفا کی شمعوں کے کچھ پاگل پروانوں کے
کچھ لفظ جنہیں معنی نہ ملیں کچھ گیت شکستہ جانوں کے
پھر اپنی گھائل آنکھوں سے خوش ہوکے لہو چھڑکایا تھا
ماٹی میں ماس کی کھاد بھری اور نس نس کو زخمایا تھا
جب فصل کٹی تو کیا دیکھا،کچھ درد کے ٹوٹے گجرے تھے
کچھ زخمی خواب تھے کانٹوں پرکچھ خاکستر سے گجرے تھے
اور دور اُفق کے ساگر میں کچھ ڈولتے ڈولتے بجرے تھے
اب پاوں کھڑاوں دھول بھری اور تن پہ جوگ کا چولا ہے
سب سنگی ساتھی بھید بھرے کوئی ماشہ ہے کوئی تولہ ہے
اب گھاٹ ہے نہ گھر دہلیز ہے نہ در اب پاس رہا کیا ہے بابا
بس اک تن کی گٹھڑی باقی ہے جا یہ بھی تو لے جا بابا
ہم بستی کو چھوڑے جاتے ہیں تو اپنا قرض چکا بابا
دعا
وہ کہتا ہے
ٌمیں ہر انسان کے دل میں چھپے رازوں سے واقف ہوں
دعائیں اس کے ہونٹوں پر جو رہ رہ کر مچلتی ہیں
انہیں میں تب سے سنتا ہوں
کہ جب اس کو ابھی الفاظ کے معنی نہ آتے تھے
اگر یہ بات ہے یونہی تو پھر وہ کیوں یہ کہتا ہے؟؟
زمیں والوں دعا مانگو
جو دل میں ہے وہ سب کہ دو
ہے جو بھی مدعا، مانگو
میرے د ل میں بہت دن سے یہ الجھن تھی
اگر وہ جانتا ہے (اور یقیناً جانتا ہے) تو
وہ کیوں میری دعاؤں کو
میرے ہونٹوں سے سننے کے لیے اصرار کرتا ہے
تو کیا اس کو
مری بے چارگی ، بے مائیگی اور بے کسی کی گڑگڑاہٹ سے
کوئی تسکین ملتی ہے
وہ مالک ہے زمینوں کا، آسمانوں اور خلاؤں کا
مرے اشکوں کی آخر اس سخی کو کیا ضرورت ہے
انہی الجھے سوالوں کا بہت سا بوجھ تھا دل پر
جسے لے کر
میں پہلی مرتبہ داخل ہوا تھا صحنِ کعبہ میں
ہوا کچھ یوں
نمازِ فجر سے پہلے، حضوری کی عنایت کے تشکر میں
اٹھائے ہاتھ جب میں نے او ر ان معمول
کے لفظوں میں پھر وہ دعا مانگی
کہ جو میرا وظیفہ تھا
تو یک دم یوں لگا مجھ کو
کسی نادیدہ دستِ مہرباں نے میرے شانے کو
ؓبڑی شفقت سے تھپکا ہو
اسی لمحے کوئی خوشبو میرے چارسو پھیلی
او ر اِک رحمت بھری آواز نے کانوں میں رَس گھولا
-
مرے بندے
دعا وہ راستہ ہے جوتجھے تجھ سے ملاتا ہے
یہ ایسا آئینہ ہے
جس میں کوئی عکس بھی قائم نہیں ہوتا
-
کہ میں اس کو اٹھا لیتاہوں بننے سے کہیں پہلے
کہ اس کے حسن میں اس حسنِ کامل کی شباہت ہے
یہ ساری وسعتِ کون ومکاں جس کی شباہت ہے
شفاعت اِس کو حاصل حشر میں اس ذات کی ہوگی کہ جو محبوب ہے میرا
دعا میں سب کی سنتا ہوں کہ سب مخلوق ہے میری
مگر تیری دعاؤں کو میسر یہ فضیلت ہے
کہ اِن کو اس مرے محبوب کے ہونٹوں سے نسبت
کہ جوسردار ہے تیرا
دعا میرے محمدﷺ کی بہت مرغوب سنت ہے
دعا میری نہیں بندے، دعا تیری ضرورت ہے
Friday, March 18, 2016
ہمارے ہاتھ خالی ہیں
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﻘﺪﺭ ﺳﮯ ﺍُﻟﺠﮭﺘﯽ ﺍَﻥ ﮔِﻨﺖ ﺍِﻥ ﻣﯿﮟ ﻟﮑِﯿﺮﯾﮟ ﮨﯿﮟ
ﻟﮑِﯿﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﮨﮯ
ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺯﻧﺪﮔﺎﻧﯽ ﮨﮯ
ﻣﮕﺮ ﭘِﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﻣﺎﺿﯽ ﻧﻤﺎﯾﺎﮞ ﮨﮯ، ﮐﮩﯿﮟ ﺍَﺳﺒﺎﺏ ﺩِﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﮨﻢ ﺍﺏ ﺟﮭﯿﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﺒﮭﯽ ﺣﺎﻻﺕ ﺩِﮐﮭﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﻮ ﭘَﻞ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺋﮯ، ﻭﮦ ﺳﺐ ﺍِﻥ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺎﺋﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﭘﻮﺷﯿﺪﮦ ﮨﮯ، ﺳﺒﮭﯽ ﺍَﺩﻭﺍﺭ ﻣﺒﮩﻢ ﮨﯿﮟ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺁﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﭘَﻞ، ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﮔُﻢ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﯾﮧ ﻟﮕﺘﺎ ﮨﮯ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﮨﺎﺗﮫ ﺧﺎﻟﯽ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﻟﮑﯿﺮﯾﮟ ﺗﮑﺘﺎ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻣﮕﺮ ﺍﭘﻨﯽ ﮨﺘﮭﯿﻠﯽ ﭘﮧ ﻧﮩﯿﮟ ﺩِﮐﮭﺘﯽ ﻣُﺠﮭﮯ ﮨﺮﮔﺰ
ﻭﮦ ﺍِﮎ ﺳﺎﻋﺖ ﺟﻮ ﺧﺰﺍﮞ ﺭُﺕ ﮐﻮ ﺑﮩﺎﺭﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺪﻟﺘﯽ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺍِﮎ ﻟﻤﺤﮧ ﺟﻮ ﺻﺪﯾﻮﮞ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﻦ ﮐﻮ ﻣﺎﺕ ﺩﮮ ﺟﺎﺋﮯ
ﻭﮦ ﺍِﮎ ﺭَﺳﺘﮧ ﺟﻮ ﭘَﻞ ﺑﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﻣﻨﺰﻝ ﮐﻮ ﭘﮩﻨﭻ ﺟﺎﺋﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺗﮑﻤﯿﻞ ﮐﺮ ﺟﺎﺋﮯ
ﻣﯿﮟ ﭘﮩﺮﻭﮞ ﺗﮑﺘﯽ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﻮﮞ، ﺍُﻟﺠﮭﺘﯽ ﺍِﻥ ﻟﮑﯿﺮﻭﮞ ﮐﻮ
ﻣﮕﺮ ﺍﺏ ﺗﮏ ﻧﮩﯿﮟ ﻣِﻠﺘﯽ
ﻭﮦ ﺍِﮎ ﺳﺎﻋﺖ ﮐﮧ ﺟﺲ ﭘﮧ ﻭﺻﻞ ﮐﺎ ﭘﯿﻐﺎﻡ ﻟِﮑﮭﺎ ﮨﻮ
ﻭﮦ ﺍِﮎ ﺭﯾﮑﮭﺎ ﺟﺲ ﭘﮧ ﺗﯿﺮﺍ ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﻟِﮑﮭﺎ ﮨﻮ
کیمیا گر
کیمیا گر۔۔۔!
کیمیا گر۔! پرکھ تو سہی
اور پرکھ کر ہمیں بتا
کون سی دھات کے خواب ہیں
جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر
کیمیا گر!
ہمارے دکھوں کا مداوا نہ کر
پر ہماری کسی بات پر یوں نہ ہنس
کہ ہماری جگہ ترے آنسو نکل آئیں۔۔۔۔۔۔ہم ہنس پڑیں
کیمیا گر۔۔۔!
اگرچہ ہماری مسافت کی گھڑیاں زیادہ نہیں
اور ہمارا بدن بھی تھکن سے نہیں ٹوٹتا
اور آنکھیں بھی زندہ ہیں دل کی طرح
پر ہمیں اس مسافت میں رہنے کے سب پیچ و خم
کھا گئے۔
دوستوں نے جو ڈالے تھے یہ سوچ کر
کہ ہمیں اپنی منزل سے پہلے تھکن لوٹ لے۔۔۔
کیمیا گر۔۔۔!
ہمارا ھنر دیکھ، ہم نے کٹھن راستوں کے سیہ پتھروں کو
لہو کی اَنی اور نظر کی ہتھوڑی سے کیسے تراشا
کہ اب لوگ ان کو بھی خوابوں کی تعبیر کہنے لگے
کیمیا گر۔۔۔!
زرِ خواب سے آنکھ خالی ہوئی
پاس کچھ بھی نہیں
کچھ پرکھ تو سہی!
کچھ بتا تو سہی!
کون سی دھات کے خواب ہیں؟
جو پگھلتے نہیں اور بکھرتے نہیں خاک پر
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
بھلائیں گے اسے
لیکن _______!
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ
ابھی رستے میں ہے وہ موج
کہ ساحل تک نہیں پہنچی
جو گیلی ریت کی چادر پہ بکھرے
اس کے قدموں کے نشاں
وارفتگی سے چوم کر معدوم کر ڈالے
ابھی پت جھڑ کا سائہ اس قدر گہرا نہیں اترا
کہ دل کی سوکھتی ٹہنی سے
اس کی آرزو کا آخری پتا بھی جھڑ جائے
ابھی تک میں نے اس احساس کی مٹھی نہیں کھولی
کہ جس میں قید کر رکھی ہے اس کے لمس کی حدت
ابھی دوری کی نشترکاریوں کے زخم بھرنے دو
زرا سا وقت کے مرحم کو اپنا کام کرنے دو
نواحِ جاں سے اس کے قرب کا احساس جانے دو
میرے کاندھے سے اس کے آنسوؤں کی باس جانے دو
ابھی کچھ دن ٹھہر جاؤ