ذرا دھیرے سے تم چلنا
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتے ہیں
کبھی سورج کی ہو حدت تو یہ سایہ بناتے ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتے ہیں
انہی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت بھی
یہی آنکھوں کی ٹھنڈک
یہی فرحت بھی، یہی راحت بھی
انہی سے رونق محفل
انہی سے حرمت محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی، یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر جو نکلو تو
کبھی پیروں کی بیڑی بھی
بنیں پسلی سے ہیں یہ
اس لیے تھوری ٹیڑھی بھی
مگر تم توڑ مت دینا
انہیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دکھ اٹھاتی ہیں
تمہاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمہاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جایئں اگر
اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری
یہی سفیاں بناتی ہیں
Tuesday, March 15, 2016
یہی وہ آبگینے ہیں
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment