Tuesday, March 15, 2016

یہی وہ آبگینے ہیں


ذرا دھیرے سے تم چلنا
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کبھی ہو پیاس کی شدت تو یہ پانی پلاتے ہیں
کبھی سورج کی ہو حدت تو یہ سایہ بناتے ہیں
یہ ہیں آنگن کے تارے جو ہمیشہ جگمگاتے ہیں
مکاں کو گھر بناتے ہیں
انہی میں وہ قرینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
یہی وہ آبگینے ہیں
کہ جو گھر بھر کی زینت بھی
یہی آنکھوں کی ٹھنڈک
یہی فرحت بھی، یہی راحت بھی
انہی سے رونق محفل
انہی سے حرمت محمل
بھری شاداب دنیا میں
یہی سرسبز اک حاصل
یہی جنت کے زینے ہیں
کہ ہیں یہ ماں
یہی بیٹی، یہی بہنا
یہی ہیں ہاتھ کا گہنا
محاذوں پر جو نکلو تو
کبھی پیروں کی بیڑی بھی
بنیں پسلی سے ہیں یہ
اس لیے تھوری ٹیڑھی بھی
مگر تم توڑ مت دینا
انہیں مستور ہی رکھنا
کہ عصمت کے نگینے ہیں
کہ یہ تو آبگینے ہیں
کبھی سوچا بھی ہے تم نے
یہ کتنا دکھ اٹھاتی ہیں
تمہاری زندگی کو کس طرح شاداں بناتی ہیں
تمہاری راہ کے کانٹے
یہ چن لیتی ہیں پلکوں سے
سفر آساں بناتی ہیں
سنور جایئں اگر
اک نسل کا ایماں بناتی ہیں
پھر ان معصوم کلیوں کو
یہی بصری
یہی سفیاں بناتی ہیں

No comments:

Post a Comment