مجھے اک نظم کہنی ہے
کہ جس میں، میں کہوں وہ سب
کبھی جو کہہ نہ پائی میں
سنو تو، ہمسفر میرے
سنو تو، چارہ گر میرے
محبت یوں بھی ممکن تھی
کہ رہ کر دور جی لیتے
سبھی اشکوں کو پی لیتے
محبت روگ نہ بنتی
تمہاری یاد رہتی تو
تمہارا ساتھ رہ جاتا
پرانے موسموں کا بھی
وہی انداز رہ جاتا
مگر اب کیا کہوں تم سے
کروں شکوہ کوئی کیسے
کہ جو کچھ میں نے پایا تھا
اسے خود ہی گنوایا ہے
مگر اک سچ کہوں جاناں
سب کچھ اپنا کھو کر بھی
کہ تم سے دور ہو کر بھی
کوئی امید کہتی ہے
محبت اب بھی ممکن ہے
No comments:
Post a Comment