Wednesday, March 16, 2016

صرف میرے ہو تم

صبح کے عکس میں، شام کے روپ میں
میں نے دیکھا تمیں
ڈولتی چھاؤں میں، پھیلتی دھوپ میں
وقت سے ماورا ایک احساس میں
جیسے پردے کھلیں بدھ پہ بن باس میں
میں نے دیکھا تمہیں، جھٹپٹے کے سمے
دور تک آسماں جب سنہرا ہوا
جب سمندر لگے بات کرتا ہو
بہتا دریا ہو محسوس ٹھہرا ہوا-
تم ملے تو مجھے پر نہیں اس طرح
اجنبی جس طرح
اک سرائے کی ڈھلتی ہوئی شام میں، ایسے ہنگام میں
جب تھکن کے ہوں آنکھوں پر پہرے لگے اور معنی کوئی
گیت ایسا کسی کے لیے چھیڑ دے
جسں میں مستی ہو اک جھومتی لہر کی
جس میں مستی ہو اک جھومتی لہر کی
جس میں یادیں ہوں اک گمشدہ شہر کی
جو نگاہوں کے آگے سے ہٹتا نہ ہو
ایک پل جس کی فرقت میں کٹتا نہ ہو
اور دل، اک الاؤ میں جلتی ہوئی
لکڑیوں کی طرح راکھ ہونے لگیں
جال بنتی ہوئی مکڑوں کی طرح
آپ ہی اپنے رستے کو کھونے لگیں
تم نے دیکھا مجھے پہلے پہلے یونہی جیسے دیکھے کوئی ایک رہگیر کو
جو اچانک کسی اجنبی موڑ پر بے ارادہ ملے
اور شاید اسی
ایک لمحے میں تم، بھیڑ میں ہوکے گم، بھول جاتے مجھے
)کہ مقدر یہی ہے، ہر ایسی اچانک ملاقات کا، سر سری بات کا(
اور مرضی مگر کچھ ستاروں کی تھی
یک بیک جو تمہیں جانے کس چیز سے، ایک ٹھوکر لگی اور تم ایک دم
آگرے اس طرح میری آغوش میں
جیسے دو دیر سے بچھڑے ساتھی ملیں
وصل کی شب دیا اور باتی ملیں
سال گزرے بہت اس ملاقات کو
ہاں گھڑی وہ مگر اب بھی گزری نہیں
ہو مرے بازوؤں کے ہی گھیرے میں تم
ساری شاموں میں تم، ہر سویرے میں تم
میں نے دیکھا تمہیں پھر نہ دیکھا کہیں
اب یہاں سے کہیں مجھ کو جانا نہیں
میں جہاں پر بھی ہوں بس تمہارا ہوں میں
تم جہاں پر بھی ہو صرف میرے ہو تم
صرف میرے ہو تم!

No comments:

Post a Comment