لیکن
اکیلے ہم اکیلے تم
یونہی جیتے
تو صدیاں کاٹ دیتے
شاید اپنے دل میں
خود کو خواہشوں کے ساتھ
دفنا کر
کسی کے ناپسندیدہ
بدن کو
اپنے اوپر اوڑھ لیتے جانے
ایسا کیوں ہوا
کیسے ہوا
جنگل پہ چھایا ابر
اپنا رخ بدل کر
تپتے صحرا کے بدن پر
پھٹ پڑا
نخل تمنا میں
ذرا سی زندگی
آ تو گئی
لیکن!
محبت کی یہ اندھی بارشیں
آخر کہاں تک
پیاسی تنہائی کو
جل تھل کرنے والی ہیں
No comments:
Post a Comment