اِس موڑ سے جاتے ھیں
کچھ سست قدم رستے
کچھ تیز قدم راھیں
پتھر کی حویلی کو
شیشے کے گھروندوں میں
تِنکوں کے نشیمن تک
اِس موڑ سے جاتے ھیں۔۔۔
آندھی کی طرح اڑ کر
اک راہ گذرتی ھے
شرماتی ھوئی کوئی
قدموں سے اترتی ھے۔
ان ریشمی راھوں میں
اک راہ تو وہ ھو گی
تم تک جو پہنچتی ھے
اِس موڑ سے جاتے ھیں۔۔۔
صحرا کی طرف جا کر
اِک راہ بگولوں میں
کھو جاتی ھے چکرا کر
رُک رُک کے جھجکتی سی
اِک موت کی ٹھنڈی سی
وادی میں اُترتی ھے
اِک راہ اُدھڑتی سی
چلتی ھوئی کانٹوں سے
جنگل سے گزرتی ھے
اِس موڑ سے جاتے ھیں۔۔۔
اک دُور سے آتی ھے
پاس آکہ پلٹتی ھے
اک راہ اکیلی سی
رکتی ھے نہ چلتی ھے
یہ سوچ کہ بیٹھا ھوں
اک راہ تو وہ ھوگی
تم تک جو پہنچتی ھے
اِس موڑ سے جاتے ھیں۔۔۔
اِس موڑ پہ بیٹھا ھُوں
جس موڑ سے جاتی ھیں
ھر ایک طرف راھیں
اِک روز تو یوں ھو گا
اس موڑ پر آ کر تُم
رُک جا ؤ گی کہہ دو گی
وہ کون سا راستہ ھے ؟؟
اِس موڑ سے جاتے ھیں۔۔۔
Tuesday, March 8, 2016
اِس موڑ سے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment