ہم تو یارو گیان کی اونچی دیواروں پہ بیٹھے ہیں
اور یہاں سے نیچے اک بستی میں بونے رہتے ہیں
چھوٹے چھوٹے گھر گھروندے
چھوٹے انسانوں کی بستی
چھوٹے خواب جزیرے ہیں
سوچ کی بونی جاگیریں ہیں
صبح صبح جب اس بستی کے سارے بونے
اپنے بونے خواب
کمر پہ لاد کے چلنے لگتے ہیں
ہم ہنستے ہیں
ہم جو یارو گیان کی اونچی دیواروں پہ بیٹھے ہیں
ہم ہنستے ہیں
کیا ممکن ہے کسی مینارے پر بیٹھے
کچھ اور گیانی لوگ ہوں ایسے
جن کے آگے ہم بونے ہوں
خواب ہمارے بونے ہوں
گیان کی یہ اونچی دیواریں
اونچے اونچے خواب ہمارے
ان کے آگے بونے ہوں
ہم جب نیچے بونوں کی بستی کو دیکھ کے ہنستے ہوں
ممکن ہے نا اوپر والے ہم کو دیکھ کے ہنستے ہوں؟
"ہم" ہی ہنستے نہیں ہیں یارو
"ہم" ہی اونچے نہیں ہیں
"ہم" ہی سچے نہیں ہیں۔
ممکن ہے نا
Tuesday, March 22, 2016
ملٹی ڈائی مینشن
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment