خواب سجانے والی آنکھیں
پل بھرمیں بنجر ہو جائیں
رستہ تکتے تکتے تھک کر
امیدیں پتھر ہو جائیں
لب پر اگ آئے خاموشی
اور سینے میں حشر بپا ہو
لفظوں کی مالا کا دھاگہ
بیچ سے جیسے ٹوٹ گیا ہو
بھولی بسی ساری باتیں
میں بھی شاید یاد بنا لوں
بھول کے اپنے دکھڑے سارے
ہونٹوں پہ مسکان سجا لوں
تم ڈھونڈو پھر مجھ میں، مجھ کو
اور میں خود میں گم ہو جاؤں
ایسا بھی تو ہو سکتا ہے
میں بھی اک دن تم ہو جاؤں
عاطفؔ سعید
Tuesday, November 29, 2016
خواب سجانے والی آنکھیں
کسی کو مان لینے کے کئی انداز ہوتے ہیں
کسی کو جان لینے کے
کسی کو مان لینے کے
کئی انداز ہوتے ہیں
کبھی
ہم ذات کے پندار سے آگے نہیں بڑھتے
کبھی
ہم چند قدم آگے بڑھا کر روک لیتے ہیں
کبھی
یکسر انا کی سب فصیلیں توڑ دیتے ہیں
یا خود باہر نکلتے ہیں
یا باہر سے کسی کو راستہ دیتے ہیں
وہ آئے
ہمیں تسخیر کر لے
ہم کہ تنہائی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں
ہمیں آزاد کر دے
اور بدلے میں
ہماری سب دعایئں ،آرزویئں،راحتیں جھولی میں ڈالے
ساتھ لے جائے
کسی کو مان لینے کے کئی انداز ہوتے ہیں....!
ہمارے مسئلے اب تک وہی ہیں
ہمارے مسئلے اب تک وہی ہیں
ہم
جنہیں لنگڑا کے چلنا رقص لگتا ہے
ابھی تک حاضر و ناظر کی بحثوں
"ناف سے نیچے
نہیں سینے کے اوپر
ہاں ذرا ٹخنے برہنہ ہوں
خدا ہے یا نہیں ہے "
اور ایسے ہی پسندیدہ مسائل کی فراغت میں ملوث ہیں
عجب ہیں ہم
نہ ان جیسے، کہ جن کو واجب تقلید کہتے ہیں
نہ خود جیسے، کہ جن کو شرم آنی چاہئیے، آتی نہیں ہے
ہم
جنہیں ساری حدیثیں یاد ہیں
آیات ازبر ہیں
مگر اندر سے اندھے ہیں
بھکاری ہیں
نہایت تیز ہیں
عیبوں کے چننے میں
جتانے میں
کہ دنیا ہم سے جلتی ہے
جبھی آگے نکلنے کا ہمیں رستہ نہیں دیتی
یہ ہم ہیں
ہم
جنہیں معلوم ہے ،
مکار لہجوں میں دعائیں مانگنے سے کچھ نہیں ملتا
جنہیں یہ بھی پتا ہے
خواب بِک جائیں تو آنکھیں بین کرتی ہیں
مگر پھر بھی
وہی ہیں ہم
ہمارے مسئلے اب تک وہی ہیں ..!!
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کے دور جانے سے
تعلق ٹوٹ جانے سے
کسی کے مان جانے سے
کسی کے روٹھ جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو آزمانے سے
کسی کے آزمانے سے
کسی کو یاد رکھنے سے
کسی کو بھول جانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کو چھوڑ دینے سے
کسی کے چھوڑ جانے سے
نا شمع کو جلانے سے
نا شمع کو بجھانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
اکیلے مسکرانے سے
کبھی آنسو بہانے سے
نا اس سارے زمانے سے
حقیقت سے فسانے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
کسی کی نا رسائی سے
کسی کی پارسائی سے
کسی کی بیوفائی سے
کسی دکھ انتہائی سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
نا تو اس پار رہنے سے
نا تو اس پار رہنے سے
نا اپنی زندگانی سے
نا اک دن موت آنے سے
مجھے اب ڈر نہیں لگتا
محبت زندگی ہے
اترنے دو رگوں میں
زہر مت سجھو
محبت کا نشہ ہے
محبت زندگی میں ذائقے تقسیم کرتی ہے
محبت کی زمیں پر چہل قدمی کرنے والے ہر مسافر کو
محبت شبنمی احساس سے لبریز کرتی ہے
محبت کے طلسمی رنگ ،
اس کی خوشبوئیں ،
ا س کے حسیں نغمے,
محبت کرنے والوں کو سدا سرشار رکھتے ہیں
محبت وقت سے،
حالات سے ، ماحول سے آگے
خود اپنے واسطے اپنا جہاں تعمیر کرتی ھے
اجالے بانٹتی ہے
درد کو مفہوم دیتی ہے
محبت کب کسی کے فیصلے تسلیم کرتی ہے
محبت بے نشاں رستوں پہ چلنے ،
منزلوں سے دور رہنے کا وظیفہ ہے ۔۔!
محبت زندگی ہے
یوسف خالد
Monday, November 28, 2016
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ميرﺍ ﺣﺠﺎﺏ ﺣﮑﻢ ﺭﺑﯽ , ﻣﯿﺮﯼ
ﺷﺮﻡ ﻭ ﺣﯿﺎ, ﺗﺤﻔﻆ ﺍﻭﺭ ﮈﮬﺎﻝ
ﻭَﻟَﺎ ﺗَﺒَﺮَّﺟْﻦَ ﺗَﺒَﺮُّﺝَ ﺍﻟْﺠَﺎﮨِﻠِﯿَّۃً........
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ.
ﻣﯿﮟ ﺣﮑﻢ ﺭﺏ ﭘﮧ ﻧﺎﺯﺍﮞ ﮨﻮﮞ,
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺮﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺭﺩﺍ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﺤﻔﻆ ﮐﯽ, ﻣﺠﮭﮯ
ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!! .....
ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺤﺘﺎﺝ ﻣﯿﺮﯼ ﺫﺍﺕ
ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﺳﮩﺎﺭﻭﮞ ﮐﯽ!!!....
ﺣﯿﺎ ﮐﯽ ﭘﺎﺱ ﺩﺍﺭﯼ ﺳﮯ, ﻣﺜﺎﻝ
ﺣﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!..........
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﻣﺜﺎﻝ ﺳﯿﭗ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺗﯽ, ﺭﺏ
ﻣﺠﮭﮯ ﻗﯿﻤﺘﯽ ﺳﻤﺠﮭﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﭘﻨﯽ ﻗﺪﺭ ﺍﻓﺰﺍﺋﯽ ﭘﮧ
ﻣﻐﺮﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!!!!!......
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ...
ﺯﻣﺎﻧﮯ ﮐﯽ ﻧﻈﺮ ﮔﮩﻨﺎ ﻧﮧ ﺩﮮ
ﭘﺎﮐﯿﺰﮔﯽ ﻣﯿﺮﯼ.........
ﺣﯿﺎ ﮐﮯ ﻟﻌﻞ ﻭ ﮔﮩﺮ ﺳﮯ ﻣﺠﮭﮯ
ﭘُﺮﻧﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!!.......
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ...
ﺯﻣﺎﻧﮧ ﺧﻠﻖ ﮨﮯ, ﻣﯿﮟ ﺫﺭﯾﻌﮧ
ﺗﺨﻠﯿﻖ ﭨﮭﮩﺮﯼ ﮨﻮﮞ!!!......
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺱ ﻣﻨﺼﺐ ﺗﺨﻠﯿﻖ ﭘﮧ
ﻣﻌﻤﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!!........
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ....
ﻣﺮﮮ ﺳﺮ ﭘﺮ ﺟﻮ ﭼﺎﺩﺩ ﮨﮯ, ﻣﺮﮮ
ﺍﯾﻤﺎﮞ ﮐﺎ ﺳﺎﯾﮧ!!!......
ﺍﺳﯽ ﺳﺎﺋﮯ ﮐﯽ ﭨﮭﻨﮉﮎ ﺳﮯ ﮨﺮ
ﺍﮎ ﻏﻢ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!..
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ....
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺩﯾﮟ ﭘﮧ ﺷﯿﺪﺍ ﮨﻮﮞ, ﯾﮧ
ﻣﺮﺍ ﺗﺎﺝ ﮨﮯ ﮔﻮﯾﺎ!!!...
ﻣﺮﮮ ﺍﺱ ﺩﯾﮟ ﮐﯽ ﮐﺮﻧﻮﮞ ﮐﻮ
ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻨﺸﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!..
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ...
ﺩﻋﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﺯ ﮐﯽ ﺁﻗﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺍﻣّﺖ
ﮐﻮ ﻏﯿﺮﺕ ﺩﮮ!!!!!......
ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﺍﻣﺖ ﮐﺎ ﻣﺮﮐﺰ ﮨﻮﮞ,
ﻣﺠﮭﮯ ﻏﯿﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ!!..
ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺴﺘﻮﺭ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
تیری جستجو کے حصار سے
تیری جستجو کے حصار سے __!
تیرے خواب __ تیرے خیال سے
میں وہ شخص ہوں جو کھڑا رہا
تیری چاہتوں سے ذرا پرے ___!
کبھی دل کی بات کہی نہ تھی
جو کہی تو __وہ بھی دبی دبی
میرے لفظ پورے تو تھے مگر__!
تیری سماعتوں سے ___ذرا پرے
تو چلا گیا میرے ہمسفر______!
ذرا دیکھ مڑ کے___ تو اک نظر
میری کشتیاں ہیں جلی ہوئی
تیرے ساحلوں سے ذرا پرے____!
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻭﮨﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺟﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺳﻮ ﻧﻮﺭ ﭘﮭﯿﻼ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﮭﺎﯾﺎ ﺳﻨﺎﭨﺎ
ﻧﮧ ﺭﺍﺗﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﯿﺮﺍ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﮐﮭﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﮨﺮ ﺩﻝ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﮯ ﭘﺮ
ﺍﻭﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮﻣﻮﺳﻢ ﺑﮩﺎﺭﺍﮞ ﮨﮯ
ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻠﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻧﮕﺎﮨﯿﮟ ﺭﻧﮓ ﺳﮯ ﻣﮩﮑﺘﯽ ﮨﯿﮟ
ﮔﻠﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﺳﮯ
ﺳﺐ ﻧﻈﺎﺭﮮ ﻣﻌﻄﺮ ﮨﯿﮟ
ﭘﺮﻧﺪﮮ ﭼﮩﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺧﻮﺷﯽ ﮐﮯ ﮔﯿﺖ ﮔﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﮨﺮ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﻣﺤﺒّﺖ ﮨﮯ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﻧﮧ ﺑﺎﺭﺵ ﺩﮐﮫ ﮐﯽ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﺁﻧﺪﮬﯽ ﻏﻢ ﮐﯽ ﭼﻠﺘﯽ ﮨﮯ
ﻧﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﭘﮭﺎﻧﺲ ﺑﻨﺘﯽ ﮨﮯ
ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﭼﮩﺮﻭﮞ ﭘﮯ ﻣﺴﮑﺎﻧﯿﮟ
ﮐﮩﯿﮟ ﺟﮭﮕﮍﮮ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﮧ ﻏﻢ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ
ﭼﻠﻮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﺫﺭﺍ ﭨﮩﺮﻭ
ﻣﮕﺮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮ ﻟﯿﮟ
ﯾﻘﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﺣﻘﯿﻘﺖ ﺗﻮ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮨﮯ
ﻣﯿﮟ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺟﺎﻥ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﻮﮞ
ﻧﮧ ﺳﻮﺭﺝ ﺷﺐ ﻣﯿﮟ ﭼﻤﮑﮯ ﮔﺎ
ﻧﮧ ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﭼﺎﻧﺪ ﻧﮑﻠﮯ ﮔﺎ
ﺧﺰﺍﮞ ﻣﯿﮟ ﮔﻞ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮭﻠﺘﮯ
ﯾﮧ ﻧﻔﺮﺕ ﻣﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﯽ
ﻧﮧ ﻏﻢ ﺧﻮﺷﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﯿﮟ
ﻧﮧ ﺩﻧﯿﺎ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ
ﮨﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﺣﻘﯿﻘﺖ ﮐﯿﺎ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ
ﺟﮩﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﻣﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﻻ ﻣﮑﺎﻧﻮﮞ ﺳﮯ
ﯾﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﮨﮯ ﻭﮨﯽ ﺟﻮ
ﺍﺳﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﮨﻢ ﻓﺮﺽ ﮐﯿﻮﮞ ﮐﺮﻟﯿﮟ
ﻓﻘﻂ ﺍﯾﮏ ﺗﻢ ﮨﯽ ﺍﭼﮭﮯ ﮨﻮ.....!
-
(ﺍﻣﺠﺪ ﺍﺳﻼﻡ ﺍﻣﺠﺪ)
قرض
کچھ خواب ہیں
جن کو لکھنا ہے
تعبیر کی صورت دینی ہے
کچھ لوگ ہیں
اجڑے دل والے
جنھیں اپنی محبت دینی ہے
کچھ پھول ہیں
جن کو چننا ہے
اور ہار کی صورت دینی ہے
کچھ اپنی نیندیں باقی ہیں
جنھیں بانٹنا ہے کچھ لوگوں میں
ان کو بھی تو راحت دینی ہے
اے عمر رواں!
آہستہ چل
ابھی خاصا قرض چکانا ہے!
اعتبار ساجد
نومبر ہمیشہ خاص لگتا ہے
درجن بھر مہینوں سے
سدا ممتاز لگتا ہے
نومبر کس لیے آخر
ہمیشہ خاص لگتا ہے
بہت سہمی ہوئی صبحیں
اداسی سے بھری شامیں
دوپہریں روئی روئی سی
وہ راتیں کھوئی کھوئی سی
گرم دبیز ہواؤں کا
وہ کم روشن اجالوں کا
کبھی گزرے حوالوں کا
کبھی مشکل سوالوں کا
بچھڑ جانے کی مایوسی
ملن کی آس لگتا ہے
نومبر اس لیے شاید
ہمیشہ خاص لگتا ہے
دسمبر چل پڑا گهر سے
دسمبر چل پڑا گهر سے
سنا ہے پہنچنے کو ہے
مگر اس بار کچهہ یوں ہے
کہ میں ملنا نہیں چاہتا
ستمگر سے
میرا مطلب--- دسمبر سے
کبهی آزردہ کرتا تها
مجهے جاتا دسمبر بهی
مگر اب کے برس ہمدم
بہت ہی خوف آتا ہے
مجهے آتے دسمبر سے
دسمبر جو کبهی مجهکو
بہت محبوب لگتا تها
وہی سفاک لگتا ہے
بہت بیباک لگتا ہے
ہاں اس سنگدل مہینے سے
مجهے اب کے نہیں ملنا
قسم اسکی... نہیں ملنا
مگر سنتا ہوں یہ بهی میں
کہ اس ظالم مہینے کو
کوئی بهی روک نہ پایا
نہ آنے سے، نہ جانے سے
صدائیں یہ نہیں سنتا
وفائیں یہ نہیں کرتا
یہ کرتا ہے فقط اتنا
سزائیں سونپ جاتا ہے
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻨﺘﻈﺮ ٹھہرو
ﯾﺎ____ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮩﮧ ﺩﻭ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ
ﮐﺮ ﺩﻭ ﻧﺎﻡ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ
ﯾﺎ ﺍﭘﻨﺎ ﻧﺎﻡ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺗﻢ
ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﻣﯿﺖ ﺑﻦ ﺟﺎﺅ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﭼﻦ ﻟﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﭘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﺗﻮ
ﻭﻗﺖ ﮐﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﻟﭙﭩﯽ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﻧﮉﮬﺎﻝ ﮨﯿﮟ ﮨﻢ ﺗﻮ
ﺩﮐﮭﻮﮞ ﮐﯽ ﺁﺯﻣﺎﺋﺶ ﮨﮯ
ﺑﮩﺖ ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﺗﮭﮏ ﺟﺎﺅ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺳﺎﺗﮫ ﭼﻞ ﮐﺮ ﺗﻢ
ﻣﺤﺒﺖ ﮐﯽ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﺗﻢ ﮐﻮ
ﮨﻢ ﺳﮯ ﺑﺪﮔﻤﺎﮞ ﮐﺮ ﺩﮮ
ﺗﻮ ﺍیسے میں ﮨﺮ ﺍﯾﮏ
ﻭﺍﭘﺴﯽ ﮐﯽ ﺭﺍﮦ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺟﻮ ﺳﻮﭼﺎ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻢ ﻧﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻭﮦ ﮐﻞ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ
ﮨﻤﺎﺭﺍ ﺗﻢ ﺳﮯ ﻭﻋﺪﮦ ﮨﮯ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﺎﺩ ﮐﻮ ﮨﻢ ﺗﻮ
ﺻﺪﺍ ﺩﻝ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﭽﮯ ﻣﯿﮟ
ﯾﻮﻧﮩﯽ ﺁﺑﺎﺩ ﺭﮐﮭﯿﮟ ﮔﮯ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ
ﺗﻢ ﺍﭘﻨﮯ ﺣﻮﺻﻠﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﺳﯽ ﮐﺒﮭﯽ ﭘﺎﺅ
ﺍﻟﺠﮫ ﺟﺎﺅ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﻣﯿﮟ
ﻭﻓﺎ ﮐﻮ ﻧﮧ ﻧﺒﮭﺎ ﭘﺎﺅ
ﮐﺴﯽ ﭘﯿﺎﺭﮮ ﺳﮯ ﻣﮑﮭﮍﮮ ﮐﯽ
ﺣﺴﯿﮟ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﮐﮭﻮ ﺟﺎﺅ
ﺍﺟﺎﺯﺕ ﮨﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎں
ﺍﮔﺮ ﺍُﺱ ﭘﻞ ﺟﻮ ﺗﻢ ﭼﺎﮨﻮ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮐﺮ ﻟﻮ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻨﺘﻈﺮ ﭨﮭﺮﻭ
ﯾﺎ____ﮨﻢ ﮐﻮ ﺍﻟﻮﺩﺍﻉ ﮐﮩﮧ ﺩو
Sunday, November 27, 2016
کہانی ختم ہوتی هے
کہانی ختم ہوتی هے
بیوفا لوگوں
سنا ہے رائگانی کی کہانی لکھ رہے هو تم
کہاں سے لفظ لاو گے
عبارت کیا بناو گے
جو لہجے میں ہے دکھ کا زائقہ
اسے کیسے چهپاو گے
اگر تحریر لکهو گے
محبت کی گواہی سے
جدائ کی سیاہی سے
قلم کی آنکھ روئے گی
سب ہی اسلوب
سارے استعارے روٹھ جائیں گے
جو دل پر بند هیں باندهے
وہ سارے ٹوٹ جائیں گے
کسی لکھ کر مٹائی سطر پر
جب دیهان ٹہرے گا
تو اک بے نام سا رشتہ
زیست کا عنوان ٹہرے گا
اسے جهٹلاو گے کیسے
بیاں کر پاو گے کیسے
اذیت کے حوالوں کو
محبت کی مثالوں کو
کسی کردار کے دل پر پڑے
زخموں کو ،چهالوں کو
بکهرتے خواب لکهو گے
رکے سیلاب لکهو گے
کہانی میں جہاں پر،تم ہجر کا باب لکهو گے
کہو ہے تاب
لکهو گے
کہانی میں عموماً آخری صفحے پر آ کے هی
دلوں کے چاک سلتے هیں
یہاں ورثے دکھ کے ملتے هیں
مگر تم کهول بیٹهے هو
یہ صفحہ شام سے پہلے
مقام صبر سے پہلے
حدِ الزام سے پہلے
کہانی ختم ہی کرنی ہے اگر انجام سے پہلے
تو یہ بهی فیصلہ کر دو
کہ هم لکهیں تو کیا لکهیں
تمہارے نام سے پہلے
عشق
عشق مظلوم ہے تو
پھر ظالم کون ہیں
عشق عبادت ہے تو
کیوں معبود بدل جاتے ہیں
عشق مسیحا ہے تو
کیوں روز دیوانے مرتے ہیں
عشق دوا ہے تو
ھاتھ میں زہر کا پیالہ کیوں
عشق دعا ہے تو
کیوں لوگ مانگنے سے ڈرتے ہیں
عشق ہمسفر ہے تو
کیوں پھر راہی بدل جاتے ہیں
عشق راستہ ہے تو
کیوں پھر منزل نہیں ملتی
عشق آس ہے تو
کیوں ہر روز ٹوٹ جاتی ہے۔
عشق تسکین ہے تو
کیوں رات بھر نیند نہیں آتی
سنو میرے ہمدم
میں تمکو بتاتا ہوں
یہ ایسا روگ ہے جاناں
کہ جس کو بھی لگ جائے
وہ جیتا ہے نہ مرتا ہے
آنکھیں بے شک پتھرا جائیں
دل پھر بھی خون روتا ہے
تمہیں کس نے کہا پاگل
عشق مظلوم ہوتا ہے
حساس دل
جن کے دل
حساس ہوتے ہیں نا
اُن کے آنسو
کبھی بھی
ضبط کے ہاتھ نہیں آتے
وہ ہمیشہ
برداشت کی حد توڑ کے
آنکھوں کی دہلیزیں پار کر جاتے ہیں
جانتے ہو دل کیوں حساس ہوتے ہیں کیونکہ
وہ ٹوٹ پھوٹ جانے کے بعد
اپنی طاقت کھو چکے ہوتے ہیں
پھر بات بے بات
بھر آتی ہیں آنکھیں
پھر عام لوگوں کی طرح
مذاق ،
طنز اور تکراریں نہیں سہی جاتی
زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی
زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی
کسی چڑیا کے گیتوں کو
کسی تتلی کے بوسے کو
کسی گڑیا کے جوتوں اور جرابوں کو
کسی لڑکے کے خوابوں کو
کسی معصوم فطرت کو
کسی کم سن شرارت کو
محبت کو
کبھی دیمک نہیں کھاتی !
پرانی خانقاہوں پر
نئے وعدوں کی رسموں کو
جدائی کے جنم دن کو
وصالی رت کی راتوں میں
بچھڑ جانے کی باتوں کو
جدائی کے پرندے کو
پرندے کے پروں پر دور تک پھیلے سرابوں کو
سرابوں کے کناروں پر
کھڑے خاموش برفیلے پہاڑوں کو
پہاڑوں سے بڑی تنہائی کے غم کو
بڑے غم کی کتابوں کو
کتابوں پر ٹپکتے آنسوؤں میں
بھیکتی راتوں کے جنگل کو
سیہ راتوں میں روشن دن کے خوابوں کو
صداقت کے نصابوں کو
گھنی نظموں کے جنگل میں
نئے رنگوں کے پھولوں کو
نئے پھولوں کی خوشبو کو
نئی خوشبو میں بھیگی مورنی کو
رقص کرتے مور کے دکھ کو
فنا کے دھوپ زاروں میں
خوشی کی برف کے غم کو
ذرا سی زندگی کو
اور بہت سی موت کو دیمک نہیں کھاتی
کبھی دیمک نہیں کھاتی !!
علی محمد فرشی
ترے لفظوں میں جادو ہے
کہا اس نے
ترے لفظوں میں جادو ہے، تو ساحر ہے
کہا میں نے
کہ یہ الفاظ پہناوا ہیں اس احساسِ قربت کا
جو تیرے ساتھ گزرے وقت کے لمحوں نے بخشا ہے
مرے الفاظ کی توقیر قائم ہے،
مرا احساس زندہ ہے،
میں اپنی ذات کے معبد میں مشغول عبادت ہوں
وہاں بھی لفط ہیں،احساس ہے،
اور روبرو اک ایسا پیکر ہے
کہ جس کے سامنے جادو گری بھی ہیچ لگتی ہے
سو تم نے کہہ دیا
میں مان لیتا ہوں، مرے لفظوں میں جادو ہے
مگر یہ مان لو تم بھی
کہ اس جادو گری میں تم بھی شامل ہو
تمہاری ذات
اپنے خال و خد
اپنے سراپے میں
مرے جادو کا حصہ ہے
کبھی خود کو جدا کر کے مرے لفظوں کو دیکھو تم
تو شاید جان جاؤ گی
کہ یہ الفاط بے معنی سے لگتے ہیں
اگر ان کا حوالہ ان سے چھن جائے
کسی دن سوچنا تم بھی
یہ ساحر کون ہے؟
یہ کیسا جادو ہے؟
تمہارے حسن کو تصویر کرنا
کیا کسی جادو سے کم تر ہے
کسی دن سوچنا تم بھی !
یوسف خالد
Friday, November 25, 2016
ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﮐﮫ ﺳﺠﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ
ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﻮﺳﻢ ﮐﮯ ﺭﻧﮓ ﺑﺪﻟﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﻟﮩﺮﺍ ﮐﺮ
ﺟﮭﻮﻧﮑﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺷﺎﺧﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻮﺭ ﺍﮌﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ
ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﺎﺩﻭﮞ ﮐﯽ ﮔﺮﻡ ﮨﻮﺍﺅﮞ ﺳﮯ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ
ﮐﯽ ﮐﻠﯿﺎﮞﺟﻠﺘﯽﮨﯿﮟ
ﺟﺐ ﺁﻧﺴﻮ ﺩﺭﺩ ﺑﮩﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ
ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺑﮯ ﺩﺭﺩ ﮨﻮﺍﺋﯿﮟ ﺳﮧ ﺳﮧ ﮐﺮ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﮯ
ﮈﮬﻠﺘﮯ ﺁﺋﯿﻨﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺟﺐ ﭘﻨﭽﮭﯽ ﻟﻮﭦ ﮐﮯ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ
ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﺟﮩﺎﮞ ﮐﮯ ﻗﺼﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺩﻡ ﺑﮭﺮ
ﮐﺎ ﻣﻮﻗﻌﮧ ﻣﻠﺘﮯ ﮨﯽ
ﻟﻔﻈﻮﮞ ﮐﮯ ﺗﯿﺮ ﭼﻼﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ
ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﯾﮧ ﻋﺸﻖ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﭽﮫ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻓﺮﺻﺖ ﮐﯽ ﮐﺎﺭﺳﺘﺎﻧﯽ
ﮨﮯ
ﺟﺐ ﻟﻮﮒ ﻣﺠﮭﮯ ﺳﻤﺠﮭﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ
ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ
ﮨﯿﮟ
ﺟﺐ ﮐﺎﻟﮯ ﺑﺎﺩﻝ ﮔﮭﺮ ﺁﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﺭﺵ
ﺯﻭﺭ ﺳﮯ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﻮ
ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺷﻮﺭ ﻣﭽﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ
ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮞ
ﺟﺐ ﺁﻧﮕﻦ ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﻮﻧﭧ ﭘﮧ
ﺍﻧﮕﻠﯽ ﺭﮐﮭﮯ ﮨﻮ
ﺳﻨﺎﭨﮯ ﺟﺐ ﺩﺭ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺖ
ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺐ ﺳﺮﺩ ﮨﻮﺍ ﮐﺎ ﺑﺴﺘﺮ ﮨﻮ ﺍﻭﺭ ﯾﺎﺩ ﺳﮯ ﺍﺱ
ﮐﯽ ﻟﭙﭩﮯﮨﻮﮞ
ﺗﺐ ﻧﻐﻤﮯ ﺳﮯ ﻟﮩﺮﺍﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ ﻟﻮﮒ
ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺟﺐ ﺍﻭﺱ ﮐﮯ ﻗﻄﺮﮮﭘﮭﻮﻟﻮﮞ ﭘﺮ ﮐﭽﮫ
ﻣﻮﺗﯽ ﺳﮯ ﺑﻦﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺗﺐ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺁﻧﺴﻮ ﺑﮩﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﭽﮫ
ﻟﻮﮒ ﺑﮩﺖ ﯾﺎﺩ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ
Thursday, November 24, 2016
محبت کو نہ جانے دو
محبت کو نہ جانے دو
اگر تم چاروں جانب غور سے دیکھو
تو تم کو یہ خبر ہو گی
زمانہ ایک مُٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
اگر آنکھوں میں ڈالو گے،
تو بینائی گنواؤ گے
اگر دل میں سنبھالو گے، تو تم جینے سے جاؤ گے
زمانہ ایک مُُٹھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
چھوؤ تو ہاتھ میلے ہوں
چلو اس پر، تو دونوں پیر چھالے ہوں
ہوس نے جال چاروں سمت ڈالے ہیں،
اور اس کے روگ کالے ہیں
سنبھل کر جو چلے، مانو مقٌدر کا سکندر ہے
زمانہ ایک مٹُھی خاک سے بڑھ کر نہیں جاناں!
مگر اس خاک میں جب دل کی آنکھوں سے کوئی دیکھے
تو اِک انمول ہیرا، سامنے اپنے وہ پائے گا
ہزاروں چاند سے بڑھ کر اُجالے لے کے آئے گا
اُسے حیران کر دے گا
بڑی سےہو بڑی مشکل، اُسے آسان کر دے گا
اُسی انمول ہیرے کا محبت نام ہے جاناں!
محبت دل پہ دستک دے تو آنے دو،
محبت کو نہ جانے دو
مقدر سے اگر تم کو یہ مل جائے، گنوانا مت
اُسے مُٹھی میں بند رکھنا، گِرانا مت
یہ وہ دولت ہے جو اک بار،
گُم ہو کر نہیں ملتی
یہ وہ خوشبو ہے جو ہر پھول کے در پہ نہیں جاتی
محبت جب چلی جائے کبھی واپس نہیں آتی
محبت کو نہ جانے دو
ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺗﯿﺮﯼ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﯾﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺗﯿﺮﮮ ﺑﺎﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮ ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺍﺑﮭﯽ ﺁﮒ ﺳﺮﺩ ﮨﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺑﮭﯽ ﺍِﮎ ﺍﻻﺅ ﺟﻼ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺰﻡِ ﺩِﻝ ﺗﻮ ﺍُﺟﮍ ﭼُﮑﯽ، ﻣِﺮﺍ ﻓﺮﺵِ ﺟﺎﮞ ﺗﻮ ﺳِﻤﭧ ﭼُﮑﺎ
ﺳﺒﮭﯽ ﺟﺎ ﭼُﮑﮯ ﻣِﺮﮮ ﮨﻢ ﻧﺸِﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﮔﯿﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﺩﺭ ﻭ ﺑﺎﻡ ﺳﺐ ﻧﮯ ﺳﺠﺎ ﻟﯿﮯ، ﺳﺒﮭﯽ ﺭَﻭﺷﻨﯽ ﻣﯿﮟ ﻧﮩﺎ ﻟﯿﮯ
ﻣِﺮﯼ ﺍُﻧﮕﻠِﯿﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﺟﮭُﻠﺲ ﮔﺌﯿﮟ ﻣﮕﺮ ﺍِﮎ ﭼﺮﺍﻍ ﺟﻼ ﻧﮩﯿﮟ
ﻏﻢِ ﺯِﻧﺪﮔﯽ! ﺗِﺮﯼ ﺭﺍﮦ ﻣﯿﮟ، ﺷﺐِ ﺁﺭﺯُﻭ! ﺗِﺮﯼ ﭼﺎﮦ ﻣﯿﮟ
ﺟﻮ ﺍُﺟﮍ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﺑﺴﺎ ﻧﮩﯿﮟ، ﺟﻮ ﺑِﭽﮭﮍ ﮔﯿﺎ ﻭﮦ ﻣِﻼ ﻧﮩﯿﮟ
ﺟﻮ ﺩِﻝ ﻭ ﻧﻈﺮ ﮐﺎ ﺳُﺮُﻭﺭ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺭﮦ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﺩُﻭﺭ ﺗﮭﺎ
ﻭﮨﯽ ﺍﯾﮏ ﮔُﻼﺏ ﺍُﻣﯿﺪ ﮐﺎ ﻣﯿﺮﯼ ﺷﺎﺥِ ﺟﺎﮞ ﭘﮧ ﮐﮭِﻼ ﻧﮩﯿﮟ
ﭘﺲِ ﮐﺎﺭﻭﺍﮞ ﺳﺮِ ﺭﮨﮕُﺰﺭ ﻣﯿﮟ ﺷِﮑﺴﺘﮧ ﭘﺎ ﮨُﻮﮞ ﺗﻮ ﺍِﺱ ﻟﯿﮯ
ﮐﮧ ﻗﺪﻡ ﺗﻮ ﺳﺐ ﺳﮯ ﻣِﻼ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﮐِﺴﯽ ﺳﮯ ﻣِﻼ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﮨﻤﺴﻔﺮ ﺟﻮ ﻋﺠِﯿﺐ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻋﺠِﯿﺐ ﺗﺮ ﮨُﻮﮞ ﻣَﯿﮟ ﺁﭖ ﺑﮭﯽ
ﻣُﺠﮭﮯ ﻣﻨﺰِﻟﻮﮞ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍُﺳﮯ ﺭﺍﺳﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﭘﺘﮧ ﻧﮩﯿﮟ
Wednesday, November 23, 2016
کہانی میں یہ کیسا موڑ ہے
کہانی میں یہ کیسا موڑ ہے
اس موڑ سے آگے
کوئی رستہ نظر آتا نہیں
اک دھند ہے
سارے مناظر غیر واضح ہیں
کہانی اپنی آنکھیں کھولتی ہے
بند کرتی ہے
کبھی جھنجھلا کے آنکھوں کے پپوٹوں کو مسلتی ہے
کبھی غصے سے اپنےہونٹ دانتوں میں دباتی ہے
کبھی بے تاب ہو کر پاؤں پتھریلی چٹانوں پر پٹختی ہے
کبھی سر کی ردا کو نوچتی ہے آہ بھرتی ہے
عجب سی بے قراری ہے
تھکن سے چور ہے سارا بدن لیکن
کہانی !
حوصلہ ہاری نہیں ہے
دھیرے دھیرے چلتی جاتی ہے
تھکن جب حد سے بڑھتی ہے
تو تھوڑی دیر کو سستانے لگتی ہے
مگر پھر !
چونک اٹھتی ہے
یقیں ہر چند غالب ہے ،مگر پھر بھی
اسے یہ فکر لا حق ہے
کہ اس کے چارسو پھیلی ہوئی یہ دھند
اس کی ذات کا حصہ نہ بن جائے
ہوا اس دھند سے آگے کے سارے منظروں کو چھو کے آئی ہے
کہانی کو اکیلا دیکھتی ہے،پاس آکر بیٹھ جاتی ہے
اسے ان خوبصورت منظروں کی ساری تصویریں دکھاتی ہے
ہوا کے ہاتھ میں اک خوشنما تحریر بھی ہے
جس میں لکھا ہے
"کہانی کو قدم آگے بڑھانا ہے
اسے ہر حال میں
اس دھند سے باہر نکلنا ہے
کہ اگلے موڑ پر
اک مرکزی کردار اس کا منتظر ہے"
یوسف خالد
زوالِ عمر
زوالِ عمر
کپکپاتی ٹانگیں، تھرتھراتے ہاتھ
خزاں سیٹیاں بجاتے آ گئی ہے
خزاں کے گھوڑے
بدن کو تاراج کرتے ہوئے
آگے نکل گئے ہیں
نامعلوم ساعتوں میں
دہلیزیں جھریوں سے بھر گئی ہیں
ہر شے سے رشتہ کمزور ہو رہا ہے
پرانے پیڑوں اور دوست ستارں سے
اور بہت پرانے یاروں سے
نیند اب ایک ایسی چیز ہے
جو صرف بچے کی آنکھ میں ہے
طالب علم کی جیب میں ہے
یا پرندے کے گھونسلے میں!
تبسم کاشمیری
وقت کب اپنے اختیار میں ہے
وقت اپنی ڈگر پہ چلتا ہے
وقت کب اپنے اختیار میں ہے
ہاں مگر ایک بات ممکن ہے
وقت کی ساری کروٹوں سے الگ
کچھ ہمارے بھی اختیار میں ہے
بر ملا اس سے کہہ تو سکتے ہیں
یہ جو سینے میں ہے الاؤ سا
یہ جوآنکھوں میں اک نمی سی ہے
یہ جو کچھ خواب ریزہ ریزہ ہیں
یہ جو اب رتجگے مقدر ہیں
چاند راتوں میں دل مچلتا ہے
ایک وحشت سی ہونے لگتی ہے
یہ جو اک بے کلی سی رہتی ہے
یہ جو اک مسقل اداسی ہے
یہ جو اک طرز زندگی اب ہے
اس سے پہلے ہمارے روز و شب
کب بھلا اس طرح گزرتے تھے
ہم کہاں کھوئے کھوئے رہتے تھے
ایسی راہوں سے آشنا کب تھے
اس کو اتنا بتا تو سکتے ہیں
اس سے یہ بات کر تو سکتے ہیں
ایک دستک کی آس رہتی ہے
ایک آہٹ کے منتظر ہیں ہم
تم سے مل کر بدل گیے ہیں ہم
یہ بتانے میں کیا قباحت ہے
یوسف خالد
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
میں سچ کہوں تو یقیں کرو گی
تمہارے لب کی ہر ایک جنبش
تمہاری آنکھوں کی جھلملاہٹ
تمہارے لہجے کی بے قراری
وہ غم میں لپٹیں، وہ دُکھ میں ڈوبیں
بچھڑتے لمحوں کی ساری باتیں
مرے خیالوں میں بولتی ہیں
مگر میں سب کچھ بھلا چکا ہوں
بچھڑتے لمحوں کی ہر نشانی کا عکس دل سے مٹا چکا ہوں
مگر میں اب جو دعا کی خاطر
یہ ہاتھ اپنے اٹھا رہا ہوں
ہیں لب تمہارے ہتھیلیوں میں
وہ لب کے جن کی ہر ایک جنبش
میں ذہن و دل سے مٹا چکا ہوں
وہ یاد اتنا دلا رہے ہیں
بچھڑتے لمحے کہا تھا تم نے
مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا
اساں پیڑاں پیڑ کے پیتیاں اساں رنھ کے کھادی اگ
اساں پیڑاں پیڑ کے پیتیاں اساں رنھ کے کھادی اگ
ساڈا ساڑ سمے دیاں سولیاں ساڈے سر سوچاں دی پگ
ساڈا در سورج دا کعبہ ساڈی دھرتی امبروں اگے
سانوں ھونی دیندی لوریاں ساڈے نال نہ چناں لگ
اسیں برفاں چلہے بالدے اسیں بھانبڑ تلدے روز
ساڈا سورج چھاویں بیٹھدا اسیں انجدے لائی لگ
ساڈے قبراں کیرنے پاندیاں ساڈے بوھے نت مکان
اسیں سدھراں مار کے نپ دے سانوں عاشق کہندا جگ
اسیں اج نہیں کل تے پاوندے ساڈی کل دا ناں اے اج
اسیں آپ ٹھگاں نوں ٹھگدے ساڈے ٹھگ چراندے وگ
اسیں جتیاں بازیاں ھار دے اسیں موت نوں دیندے دان
اسیں انجم جگ توں وکھرے ساڈے لہو دا رنگ الگ!!!
انجم رانا
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے
میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے
پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناوں کا اظہار کروں یا نہ کروں
تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں
تیرے ہاتھوں کی حرارت، ترے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں
تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو
کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں
میری درماندہ جوانی کی تمناوں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتادے مجھ کو
تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مری تقدیر بتا دے مجھ کو