Wednesday, November 23, 2016

کہانی میں یہ کیسا موڑ ہے

کہانی میں یہ کیسا موڑ ہے
اس موڑ سے آگے
کوئی رستہ نظر آتا نہیں
اک دھند ہے
سارے مناظر غیر واضح ہیں
کہانی اپنی آنکھیں کھولتی ہے
بند کرتی ہے
کبھی جھنجھلا کے آنکھوں کے پپوٹوں کو مسلتی ہے
کبھی غصے سے اپنےہونٹ دانتوں میں دباتی ہے
کبھی بے تاب ہو کر پاؤں پتھریلی چٹانوں پر پٹختی ہے
کبھی سر کی ردا کو نوچتی ہے آہ بھرتی ہے
عجب سی بے قراری ہے
تھکن سے چور ہے سارا بدن لیکن
کہانی !
حوصلہ ہاری نہیں ہے
دھیرے دھیرے چلتی جاتی ہے
تھکن جب حد سے بڑھتی ہے
تو تھوڑی دیر کو سستانے لگتی ہے
مگر پھر !
چونک اٹھتی ہے
یقیں ہر چند غالب ہے ،مگر پھر بھی
اسے یہ فکر لا حق ہے
کہ اس کے چارسو پھیلی ہوئی یہ دھند
اس کی ذات کا حصہ نہ بن جائے
ہوا اس دھند سے آگے کے سارے منظروں کو چھو کے آئی ہے
کہانی کو اکیلا دیکھتی ہے،پاس آکر بیٹھ جاتی ہے
اسے ان خوبصورت منظروں کی ساری تصویریں دکھاتی ہے
ہوا کے ہاتھ میں اک خوشنما تحریر بھی ہے
جس میں لکھا ہے
"کہانی کو قدم آگے بڑھانا ہے
اسے ہر حال میں
اس دھند سے باہر نکلنا ہے
کہ اگلے موڑ پر
اک مرکزی کردار اس کا منتظر ہے"

یوسف خالد

No comments:

Post a Comment