کہانی میں یہ کیسا موڑ ہے
اس موڑ سے آگے
کوئی رستہ نظر آتا نہیں
اک دھند ہے
سارے مناظر غیر واضح ہیں
کہانی اپنی آنکھیں کھولتی ہے
بند کرتی ہے
کبھی جھنجھلا کے آنکھوں کے پپوٹوں کو مسلتی ہے
کبھی غصے سے اپنےہونٹ دانتوں میں دباتی ہے
کبھی بے تاب ہو کر پاؤں پتھریلی چٹانوں پر پٹختی ہے
کبھی سر کی ردا کو نوچتی ہے آہ بھرتی ہے
عجب سی بے قراری ہے
تھکن سے چور ہے سارا بدن لیکن
کہانی !
حوصلہ ہاری نہیں ہے
دھیرے دھیرے چلتی جاتی ہے
تھکن جب حد سے بڑھتی ہے
تو تھوڑی دیر کو سستانے لگتی ہے
مگر پھر !
چونک اٹھتی ہے
یقیں ہر چند غالب ہے ،مگر پھر بھی
اسے یہ فکر لا حق ہے
کہ اس کے چارسو پھیلی ہوئی یہ دھند
اس کی ذات کا حصہ نہ بن جائے
ہوا اس دھند سے آگے کے سارے منظروں کو چھو کے آئی ہے
کہانی کو اکیلا دیکھتی ہے،پاس آکر بیٹھ جاتی ہے
اسے ان خوبصورت منظروں کی ساری تصویریں دکھاتی ہے
ہوا کے ہاتھ میں اک خوشنما تحریر بھی ہے
جس میں لکھا ہے
"کہانی کو قدم آگے بڑھانا ہے
اسے ہر حال میں
اس دھند سے باہر نکلنا ہے
کہ اگلے موڑ پر
اک مرکزی کردار اس کا منتظر ہے"
یوسف خالد
No comments:
Post a Comment