Wednesday, November 23, 2016

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی

میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں

چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے

میری اجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مورت کبھی ہرجائی ہے

پیار پر بس تو نہیں ہے مرا لیکن پھر بھی
تو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناوں کا اظہار کروں یا نہ کروں

تو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تو کہیں بھی ہو ترے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں

تیرے ہاتھوں کی حرارت، ترے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں

تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو

کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں

میری درماندہ جوانی کی تمناوں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتادے مجھ کو
تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مری تقدیر بتا دے مجھ کو

No comments:

Post a Comment