چلو کچھ دور چلتے ہیں
کسی سنسان رستے پر
کسی ویران وادی میں
کسی جنگل کے گوشے میں
جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا
جہاں کوئی نہیں رہتا
ہوائیں سنسناتی ہیں
فضائیں گنگناتی ہیں
نگر کوئ تو ایسا ہو
جہاں شفاف چشمے ہوں
کہ یوں لہروں میں بہتے ہوں
سطر میں درد لکھتے ہوں
بنے ہوں بیل کے جھولے
بٹھا کر تم کو میں ان میں
جھلاﺅں جھولا جانِ جاں
ہوا کے دوش پر اڑنا
تمھاری کب سے چاہت تھی
ستارے , چاند لانے کا
میں دعویٰ تو نہیں کرتا
مگر یہ چاہتا ہوں بس
کہ جیون کو تمھارے میں
کروں معمور خوشیوں سے
کسی جنت میں لے جاﺅں
جہاں پر غم نہ کوئ ہو
جہاں گونجے ہنسی تیری
نہ تیری آنکھ پرُ نم ہو
یہ سن کر مسکراتی تم
مرے سینے سے لگ جاتی
ذرا دھیمے سے یہ کہتی
میری چاہت میری راحت
نہ جگنو, پھول کلیاں ہیں
نہ سورج, چاند تارے ہیں
میری بس آرزو یہ ہے
تودیکھے بس مری راہیں
مرا گھر ہو تری بانہیں
چلو پھر گھر بسانے کو
محبت آزمانے کو
ذرا سا دور چلتے ہیں
کسی سنسان رستے پر
کسی ویران وادی میں
عمیر قریشی
No comments:
Post a Comment