Friday, November 11, 2016

چلو کچھ دور چلتے ہیں

چلو کچھ دور چلتے ہیں
کسی سنسان رستے پر
کسی ویران وادی میں
کسی جنگل کے گوشے میں
جہاں کچھ بھی نہیں ہوتا
جہاں کوئی نہیں رہتا
ہوائیں سنسناتی ہیں
فضائیں گنگناتی ہیں
نگر کوئ تو ایسا ہو
جہاں شفاف چشمے ہوں
کہ یوں لہروں میں بہتے ہوں
سطر میں درد لکھتے ہوں
بنے ہوں بیل کے جھولے
بٹھا کر تم کو میں ان میں
جھلاﺅں جھولا جانِ جاں
ہوا کے دوش پر اڑنا
تمھاری کب سے چاہت تھی
ستارے , چاند لانے کا
میں دعویٰ تو نہیں کرتا
مگر یہ چاہتا ہوں بس
کہ جیون کو تمھارے میں
کروں معمور خوشیوں سے
کسی جنت میں لے جاﺅں
جہاں پر غم نہ کوئ ہو
جہاں گونجے ہنسی تیری
نہ تیری آنکھ پرُ نم ہو
یہ سن کر مسکراتی تم
مرے سینے سے لگ جاتی
ذرا دھیمے سے یہ کہتی
میری چاہت میری راحت
نہ جگنو, پھول کلیاں ہیں
نہ سورج, چاند تارے ہیں
میری بس آرزو یہ ہے
تودیکھے بس مری راہیں
مرا گھر ہو تری بانہیں
چلو پھر گھر بسانے کو
محبت آزمانے کو
ذرا سا دور چلتے ہیں
کسی سنسان رستے پر
کسی ویران وادی میں

عمیر قریشی

No comments:

Post a Comment