Sunday, November 27, 2016

زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی

زندہ موت کو دیمک نہیں کھاتی

کسی چڑیا کے گیتوں کو
کسی تتلی کے بوسے کو
کسی گڑیا کے جوتوں اور جرابوں کو
کسی لڑکے کے خوابوں کو
کسی معصوم فطرت کو
کسی کم سن شرارت کو
محبت کو
کبھی دیمک نہیں کھاتی !
پرانی خانقاہوں پر
نئے وعدوں کی رسموں کو
جدائی کے جنم دن کو
وصالی رت کی راتوں میں
بچھڑ جانے کی باتوں کو

جدائی کے پرندے کو
پرندے کے پروں پر دور تک پھیلے سرابوں کو
سرابوں کے کناروں پر
کھڑے خاموش برفیلے  پہاڑوں کو
پہاڑوں سے بڑی تنہائی کے غم کو

بڑے غم کی کتابوں کو
کتابوں پر ٹپکتے آنسوؤں میں
بھیکتی راتوں کے جنگل کو
سیہ راتوں میں روشن دن کے خوابوں کو
صداقت کے نصابوں کو
گھنی نظموں کے جنگل میں
نئے رنگوں کے پھولوں کو
نئے پھولوں کی خوشبو کو
نئی خوشبو میں بھیگی مورنی کو
رقص کرتے مور کے دکھ کو

فنا کے دھوپ زاروں میں
خوشی کی برف کے غم کو
ذرا سی زندگی کو
اور بہت سی موت کو دیمک نہیں کھاتی
کبھی دیمک نہیں کھاتی !!

علی محمد فرشی

No comments:

Post a Comment