Friday, November 18, 2016

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو ترے غم کے بہانے نکلے​
فصلِ گل آئی، پھر اِک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے​
ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے​
عمر گذری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مرا خورشید نہ جانے نکلے​
کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یو ں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے​
دل نے اِک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
تونے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے​
دشتِ تنہائی ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہا ئے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے​
میں نے امجد اسے بےواسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے​

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment