کہانی ختم ہوتی هے
بیوفا لوگوں
سنا ہے رائگانی کی کہانی لکھ رہے هو تم
کہاں سے لفظ لاو گے
عبارت کیا بناو گے
جو لہجے میں ہے دکھ کا زائقہ
اسے کیسے چهپاو گے
اگر تحریر لکهو گے
محبت کی گواہی سے
جدائ کی سیاہی سے
قلم کی آنکھ روئے گی
سب ہی اسلوب
سارے استعارے روٹھ جائیں گے
جو دل پر بند هیں باندهے
وہ سارے ٹوٹ جائیں گے
کسی لکھ کر مٹائی سطر پر
جب دیهان ٹہرے گا
تو اک بے نام سا رشتہ
زیست کا عنوان ٹہرے گا
اسے جهٹلاو گے کیسے
بیاں کر پاو گے کیسے
اذیت کے حوالوں کو
محبت کی مثالوں کو
کسی کردار کے دل پر پڑے
زخموں کو ،چهالوں کو
بکهرتے خواب لکهو گے
رکے سیلاب لکهو گے
کہانی میں جہاں پر،تم ہجر کا باب لکهو گے
کہو ہے تاب
لکهو گے
کہانی میں عموماً آخری صفحے پر آ کے هی
دلوں کے چاک سلتے هیں
یہاں ورثے دکھ کے ملتے هیں
مگر تم کهول بیٹهے هو
یہ صفحہ شام سے پہلے
مقام صبر سے پہلے
حدِ الزام سے پہلے
کہانی ختم ہی کرنی ہے اگر انجام سے پہلے
تو یہ بهی فیصلہ کر دو
کہ هم لکهیں تو کیا لکهیں
تمہارے نام سے پہلے
Sunday, November 27, 2016
کہانی ختم ہوتی هے
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment