Sunday, November 27, 2016

کہانی ختم ہوتی هے

کہانی ختم ہوتی هے
بیوفا لوگوں
سنا ہے رائگانی کی کہانی لکھ رہے هو تم
کہاں سے لفظ لاو گے
عبارت کیا بناو گے
جو لہجے میں ہے دکھ کا زائقہ
اسے کیسے چهپاو گے
اگر تحریر لکهو گے
محبت کی گواہی سے
جدائ کی سیاہی سے
قلم کی آنکھ روئے گی
سب ہی اسلوب
سارے استعارے روٹھ جائیں گے
جو دل پر بند هیں باندهے
وہ سارے ٹوٹ جائیں گے
کسی لکھ کر مٹائی سطر پر
جب دیهان ٹہرے گا
تو اک بے نام سا رشتہ
زیست کا عنوان ٹہرے گا
اسے جهٹلاو گے کیسے
بیاں کر پاو گے کیسے
اذیت کے حوالوں کو
محبت کی مثالوں کو
کسی کردار کے دل پر پڑے
زخموں کو ،چهالوں کو
بکهرتے خواب لکهو گے
رکے سیلاب لکهو گے
کہانی میں جہاں پر،تم ہجر کا باب لکهو گے
کہو ہے تاب
لکهو گے
کہانی میں عموماً آخری صفحے پر آ کے هی
دلوں کے چاک سلتے هیں
یہاں ورثے دکھ کے ملتے هیں
مگر تم کهول بیٹهے هو
یہ صفحہ شام سے پہلے
مقام صبر سے پہلے
حدِ الزام سے پہلے
کہانی ختم ہی کرنی ہے اگر انجام سے پہلے
تو یہ بهی فیصلہ کر دو
کہ هم لکهیں تو کیا لکهیں
تمہارے نام سے پہلے

No comments:

Post a Comment