کوئی لمحہ امر کر لیں
کسی لمحے کی قسمت میں
وہ ساری خوشبوئیں ، وہ رنگ ، وہ رعنائیاں لکھ دیں
جو
اک منظر سے پھوٹی ہیں
جہاں پیڑوں کے جھرمٹ میں
ہوائیں رقص کرتی ہیں
جہاں پیڑوں کی شاخوں پر
پرندوں کی حسیں ڈاریں اترتی ہیں
تو جنگل جاگ اٹھتا ہے
نیا دن ہے نیا ماحول ہے
ماحول کے اپنے تقاضے ہیں
یہ بہتے وقت کا دریا ہے
کب رکنے پہ آتا ہے
کوئی لمحہ امر کر لیں
چلو آؤ
کسی لمحے کو اپنا ہمسفر کر لیں
کسی لمحے کو جذبوں کی مقدس بارگہہ میں
سرخرو کر لیں
کوئی لمحہ امر کر لیں
یوسف خالد
No comments:
Post a Comment