Tuesday, March 31, 2015

تم مجھے سمجھتے ہو

تم مجھے سمجھتے ہو
لیکن کیا سمجھتے ہو
تم نےمجھ کو جانا ہے
لیکن جاناں
کیا جانا ہے
تم کہتے ہو میرے درد تمہارے ہیں
میرے آنسو موتی ہیں
اور یہ زخم تمہیں پھولوں کی مانند لگتے ہیں
اپنے اپنے لگتے ہیں

ہاں تم مجھے سمجھتے ہو
لیکن یہ بھی سمجھو تم
حقیقت تو حقیقت ہے
اپنے درد ہی اپنے ہیں

ذخم کو لاکھ کہیں پھول
مگر پھول نہیں
لاکھ موتی کہیں آنسو کو
مگر آنسو ہے

میرے ہمدم
سچ کبھی جھوٹ میں تحلیل نہیں ہو سکتا
کوئی ذخم کبھی پھول نہیں ہو سکتا
جسم کبھی روح میں تحلیل نہیں ہو سکتا

محبت

محبت مدغم ہونے کا قصہ ہے جاناں
محبت تنہا نہیں ہوتی
محبت جدا نہیں ہوتی
محبت انا نہیں ہوتی
محبت ہجر میں بھی وصل کا رمز رکھتی ہے
محبت ہجرو وصل سے ماورا انوکھا قصہ ہے
عقل و وجداں کی سبھی حدوں سے بیگانہ
محبت پاگل سی ہوتی ہے
محبت پرکیف ہوتی ہے
محبت اذیت نہیں ہوتی
محبت آنسوؤوں میں دلکش سا مسکراتی ہے
محبت رمز ہے ایسا جس کی حکایت نہیں ہوتی
محبت معاملہ ہے وہ جس میں شکایت نہیں ہوتی
محبت میں اطاعت بلاشبہ واجب تو ہوتی ہے
لیکن محبت ملائکہ سے پرے کا قصہ ہے
یہ ذکرِ خفی سی ہے
کبھی ساکت بے بسی سی ہے
محبت دراصل معجزہءخودسپردگی ہے
محبت اک وحی سی ہے
محبت جنون و فسوں کی
حدوں سے بھی پرے سی ہے
محبت ہاک ہوتی ہے
اشکوں کے وضو سے ۔۔ اسکی طہارت ہے
اخلاص اسکی نیتِ نماز ہوتی ہے
جان نثاری اس کا قیام ہوتی ہے
وفا اسکا رکوع
اسکا سجدہ ۔۔ جان ہوتی ہے
محبت سلام ہوتی ہے
محبت سکون ہے جاناں
ہر سوال کا جواب ہوتی ہے
محبت گداز ہوتی ہے
محبت دلوں کو نرم کرتی ہے
جہاں دل اکڑ جاۓ
ویاں محبت نہیں ہوتی
جہاں جذبوں میں زنگ لگ جاۓ
وہاں محبت نہیں ہوتی
فشارِ ناگہانی میں
وہ جو تنہا رہ جاۓ
وہاں انا تو ہوتی ہے
ہوس بھی ہو وہاں شاید
وہاں کچھ بھی ہو تو ہو
ہاں وہاں محبت نہیں ہوتی
محبت جہانِ فانی میں لافانی قصہ ہے
محبت آزمائش اور عطا کا جاری قصہ ہے
محبت بقدرِ ظرف ہوتی ہے
تم جیسا سلوک اس سنگ کرو
یہ ہھر بھی مہرباں ہوتی ہے
محبت معاف کرتی ہے
محبت رحمان ہوتی ہے
محبت بدگمان نہیں ہوتی
محبت مہربان ہوتی ہے
محبت میں ہوں
اور محبت تم ہو جاناں
محبت اللہ کا خوبصورت احسان ہوتی ہے
محبت کرب میں بھی بہت صابر سی ہوتی ہے
محبت اک عطاۓ ربِ دو جہاں سی ہے
محبت دھوکہ کھا جاۓ
محبت دھوکہ نہیں ہوتی
محبت دھوکہ سہہ جاۓ
محبت دھوکہ نہیں دیتی
محبت امید ہوتی ہے
محبت کفر نہیں ہوتی
محبت نگاہِ ضبط کے خوشوں میں
چھلکتا ۔۔ سنبھلتا اشکِ مجاہد ہے
محبت اللہ کا تحفہ ہے
یہ واحد تحفہ ۔۔ تحفہء واحد ہے
قید بھی ہوکر
محبت آزاد ہوتی ہے
محبت بندش نہیں ہوتی
محبت لرزش نہیں ہوتی
محبت واحد سایہ ہے
جھلستے زمانے میں
محبت دلدوز قصہ ہے
ستمگر زمانے مٰیں
دریا کے دو نہ مل سکنے والے
کناروں کے ملنے کا
محبت ۔۔ واحد سہارا ہے
محبت میرے اللہ کا ۔۔ واللہ
سب سے خوبصورت اشارہ ہے

نظموں کی قسمیں ہوتی ہیں

کچھ نظمیں گہری ہوتی ہیں
جیسے عورت
عورت بھی اک نظم ہے جو بے حد گہری ہے
سطحی آنکھیں رکھنے والوں پر نئیں کھلتی
اپنا بھید چھپا لیتی ہے

کچھ نظمیں سادہ ہوتی ہیں
جیسے بچے
ایک ذرا سا پیار سے دیکھو
صاف سمجھ میں آ جاتی ہیں

کچھ نظمیں مشکل ہوتی ہیں
جیسے دنیا
دنیا ہی تو آدم کی ٹیڑھی پسلی ہے
آدم زاد کی ہر آسانی اس پسلی کی مشکل میں ہی چھپی ہوئی ہے

کچھ نظمیں سچی ہوتی ہیں
جیسے آنسو
آنکھیں جھوٹی ہو سکتی ہیں
آنسو جھوٹ نہیں ہوتے ہیں
اسی لئے تو سچی نظمیں کم کم لکھی جاتی ہیں

کچھ نظمیں اعلی ہوتی ہیں
جیسے تم ہو
میں اس نیلے سیّارے کی ساری نظمیں دیکھ چکا ہوں
اس دھرتی پر تم سے اعلی ،تم سے بڑھ کر ،تم سے اچھی
کوئی نظم
کہیں پر بھی موجود نہیں ہے
تم وہ واحد نظم ہو
جس کو رب نے صرف میری خاطر لکّھا
اعلی نظم
تمہیں اک نظم کا بھید بتاؤں
نظموں میں اک نظم بہت قاتل ہوتی ہے
جیسے محبّت
یہ وہ نظم ہے جس میں لفظ نہیں ہوتے ہیں
یہ خاموشی سے آتی ہے
لکھنے والے کے اندر ڈیرہ کرتی ہے
تن من مٹی کر دیتی ہے
اور اس قاتل نظم کی ایک عجب خوبی ہے
اور وہ یہ ہے
اس کو لکھنے سے پہلے مرنا پڑتا ہے
نظم - محبّت
نغمہ - عشقی
بزدل اور منافق لوگ نہیں لکھ سکتے
اعلی نظم
تمہیں اک بات میں اور بتاؤں
ہاتھ مرے ہاتھوں میں دینا
اور نہایت دھیان سے سننا
نظم - محبّت
نظموں میں جو نظم بہت قاتل ہوتی ہے
میرے اندر جاگ چکی ہے

Monday, March 30, 2015

مجھے اچھا سا لگتا ہے

مجھے اچھا سا لگتا ہے
تم ہی کو دیکھتے رہنا
تم ہی کو چاہتے رہنا
تم ہی کو سوچتے رہنا
تم ہی کو سنتے رہنا
بہت گہرے خیالوں میں
جوابوں میں سوالوں میں
محبت کے حوالوں میں
تمہارا نام آجانا
مجھے اچھا سا لگتا ہے
تمہارے سنگ سنگ چلنا
وفا کی آگ میں جلنا
تمہیں ناراض کر دینا
کبھی خود بھی روٹھ جانا
تمہاری بے رخی پے بھی
تمہاری آرزو کرنا
خود اپنے دل کی دھڑکن سے
تمہاری گفتگو کرنا
مجھے اچھا سا لگتا ہے..!!♡

تیرے آنے سے پہلے

تیرے آنے سے پہلے
میری زندگی
کیا تھی!
کچھ نہیں،
ایک بے نام زندگی
ایک خود غرض محبت
جلتی جھلستی دھوپ
لیکن!
تیرے آنے کے بعد
میری جان! میں نے یہ جانا
زندگی محبت کا خوبصورت نام ہے
ایک انمول تحفہ ہے با وفا محبت کا
ایک سایہ ہے جلتی جھلستی دھوپ میں۔
لیکن!
تمھیں کیا معلوم
میری پہلی محبت اور پہلی زندگی
تم سے ملنے سے پہلے
وہ محبت، وہ زندگی
ایسی تو نہ تھی
جتنی محبت، جتنی چاہت، جتنی شدت
اب ہے!
تیرے آنے کے بعد 

ھم جب زندگی گزار رھے ھوتے ھیں

ھم جب زندگی گزار رھے ھوتے ھیں تو ھر گزرتا لمحہ ھر گزرتا دن ھم سے جینے کا کچھ نہ کچھ خراج وصول کر کے رخصت ھوتا ھے،
اور ھر دن اپنے دامن میں بھر کے لائی ھوئی چھوٹی بڑی خوشیاں اور کامیابیاں ھمارے دامن میں انڈیلتا ھوا جاتا ھے.
لیکن جب ھم پیچھے مڑ کر دیکھتے ھیں تو ھمیں صرف گنے چنے خاص دن، چند بڑی خوشیاں، اور کچھ جان لیوا غم ھی یاد آتے ھیں. . .
روزمرہ کی زندگی ذھن سے کہیں محو ھو جاتی ھے، اسی لئے ھمیں محسوس ھوتا ھے کہ وقت بہت تیزی سے گزر گیا. . .
لیکں وہ انسان جس کا ھر دن پچھلے دن سے زیادہ اذیت لے کر آیا ھو، اور ھر رات پچھلی رات سے بڑھ کر جینے کا خراج وصول کر کے رخصت ھوئی ھو، ذرا اس سے پوچھئے کہ گرمی کی ھر دوپہر اور سردی کی ھر شام کتنی طویل تھی. . .
اور ایسے لوگ جب زندگی کے راستے پر شکرگزاری اور صبر کا دامن پکڑے چلے جا رھے ھوں تو جان لیجئے کہ وہ انعام یافتہ لوگ ھیں.

مرے مالک میں جینا چاہتی ہوں

میں بیٹی ہوں
مرے دنیا میں آتے ہی
بہت سے وسوسے آکر مری ماں کو ڈراتے ہیں
وہ ہر پل سوچتی ہے یہ
مری قسمت نہ جانے کون سے دکھ
اپنے دامن میں لیے ہوگی
مرا بھائی اگر کوئی شرارت کررہا ہو تو
بڑے انداز سے یہ دنیا والے
مری ماں سے یہ کہتے ہیں
ارے لڑکا ہے جانے دو
مگر میرے لیے ان کی نگاہوں سے
فقط شعلے برستے ہیں
میں بولوں تو کہا جاتا ہے
اچھی لڑکیاں بولا نہیں کرتیں
وہ اپنے باپ اور بھائی کے ہر فرمان کو سنتی ہیں
اور سر کو جھکاتی ہیں
کہ وہ ہر حال میں کنبے کی عزّت بچاتی ہیں
میں سوچوں تو
مری سوچوں کے پر یہ کہہ کے اکثر کترے جاتے ہیں
کہ
اچھی لڑکیاں تو بےسروپا بات کو سوچا نہیں کرتیں
مگر میں کیا کروں کہ
میرے خالق نے
مجھے انسان بنایا ہے
مرے سینے میں دل اور ذہن کو ادراک بخشا ہے
میں حرف مدعا کے پھول ہونٹوں پر سجانا چاہتی ہوں
میں اپنے ذہن میں سوچوں کی پھلواری لگانا چاہتی ہوں
میں اک مدّت سے زندہ ہوں
مگر
مرے مالک میں جینا چاہتی ہوں

آج یاد بہت تم آئے ہو

آج ہلکی ہلکی بارش ہے 
آج سرد ہوا کا رقص بھی ہے 
آج پھول بھی نکھرے نکھرے ہیں 
آج ان میں تمہارا عکس بھی ہے 
آج بادل کالے گہرے ہیں 
آج چاند پہ لاکھوں پہرے ہیں 
کچھ ٹکرے تمھاری یادوں کے 
بڑی دیر سے دل میں ٹھرے ہیں 
آج یادیں الجھی الجھی ہیں 
آج تار یہ دل کے سلجھے ہیں
آج یاد بہت تم آئے ہو 
آج یاد بہت تم آئے ہو

ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺤﺮ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻤﮩﯿﮟ
ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﮯ ﺳﺤﺮ
ﻭﻓﺎﺋﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﮔﯿﺮ
ﺍﻭﺭ
ﻭﻋﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺯﻧﺠﯿﺮ ﺳﮯ
ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯿﺎ
ﺧﺪﺍﺭﺍ ...
ﯾﮧ ﻣﺖ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﮐﮧ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺧﻮﺩ ﮐﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﻗﯿﺪ ﺳﮯ
ﺁﺯﺍﺩ ﮐﯿﺎ ﯾﺎ ﻧﮩﯿﮟ
ﯾﻘﯿﻦ ﺟﺎﻧﻮ
ﻣﯿﮟ
ﺍﻥ ﻗﯿﺪﯾﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﮨﻮﮞ
ﺟﻮ ﮐﮭﻠﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ
ﻓﺮﺍﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﮯ

ﺗﻢ ﺍﺑﺮ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮬﻮ

ﻣﯿﮟ ﺻﺤﺮﺍ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﮬﻮﮞ
ﺩﻭ ﺑﻮﻧﺪ ﺟﻮ ﺑﺮﺳﻮ ﮔﯽ
ﺑﯿﮑﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﺑﺮﺳﻮ ﮔﯽ
ﮬﮯ ﺧﺸﮏ ﺑﮩﺖ ﻣﭩﯽ
ﮬﺮ ﺳﻤﺖ ﺑﮕﻮﻟﮯ ﮬﯿﮟ
ﺻﺤﺮﺍ ﮐﮯ ﺑﮕﻮﻟﻮﮞ ﺳﮯ
ﺍﭨﮭﺘﮯ ﮬﯿﮟ ﺗﻮ ﺷﻌﻠﮯ ﮬﯿﮟ
ﺗﻢ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﺍﮔﺮ ﺑﺮﺳﻮ
ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ ﮔﻠﺴﺘﺎﮞ ﮬﻮ
ﭘﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ
ﺗﻢ ﺍﺑﺮ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮬﻮ

ﺟﻞ ﺗﮭﻞ ﺟﻮ ﺍﮔﺮ ﮐﺮ ﺩﻭ
ﺗﻦ ﻣﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﯽ ﺑﮭﺮ ﺩﻭ
ﮬﮯ ﺧﺸﮏ ﺑﮩﺖ ﻣﭩﯽ
ﭘﻮﺭﯼ ﺟﻮ ﮐﻤﯽ ﮐﺮ ﺩﻭ
ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﮐﮧ ﺭﻭﺡ ﻣﯿﮟ ﭘﻨﮩﺎﮞ ﮬﻮ
ﭘﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ
ﺗﻢ ﺍﺑﺮ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮬﻮ

ﻣﻞ ﺟﺎﺅ ﺍﮔﺮ ﮨﻤﮑﻮ
ﮨﻢ ﺟﺸﻦ ﻣﻨﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺩﮬﺮﺗﯽ ﻧﮯ ﻧﮧ ﺩﯾﮑﮭﮯ ﮨﻮﮞ
ﻭﮦ ﭘﮭﻮﻝ ﮐﮭﻼﺋﯿﮟ ﮔﮯ
ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺟﺎﻟﮯ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﭼﺮﺍﻏﺎﮞ ﮨﻮ
ﭘﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ کیسا
ﺗﻢ ﺍﺑﺮ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮨﻮ

ﻣﺎﻧﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﻗﺎﺑﻞ
ﺗﻢ ﭼﺎﮨﻮ ﻣﺤﺒﺖ ﺩﻭ
ﮨﻢ ﺗﻢ ﮐﻮ ﺻﺪﺍ ﭼﺎﮨﯿﮟ
ﺑﺲ ﺍﺗﻨﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﺩﻭ
ﺗﻢ ﻋﺸﻖ ﺗﻤﮩﯽ ﭘﻮﺟﺎ
ﺍﮮ ﺟﺎﻥ ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﮞ ﮨﻮ
ﭘﺮ ﺗﻢ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ
ﺗﻢ ﺍﺑﺮ ﮔﺮﯾﺰﺍﮞ ﮨﻮ

Saturday, March 28, 2015

تمہی کو یاد کرتا ہوں

تمہی کو یاد کرتا ہوں

میں
اکثر رات کو
تنہا اکیلے میں
تم ہی کو یاد کرتا ہوں
تمہاری جھیل سی شرماتی آنکھوں کو
جو مجھ کو دیکھ کر
ایک پل
حیا کے لال پردوں میں
سمٹ سی جاتی تھی
تمھارے ہاتھ کے ٹھنڈے پسینے
جو تنہا دیکھ کر مجھ کو
بڑی چاہت سے آتے تھے
میں
جونہی ہاتھ میں اپنے
تمہارا ہاتھ لیتا تھا
میرے ہاتھوں کی گرمی سے
پسینے بھاپ بن کے
اس فضا میں کھو سے جاتے تھے
انہی کو یاد کرتا ہوں
وہ جب تھک کر
تمہاری گود میں سر رکھ کے سوتا تھا
تم اپنی زلف کی ٹھنڈی ہواؤں کے
ہزاروں قافلے لے کر میرے چہرے پہ جھکتی تھیں
بڑے ہی پیار سے
جب مجھ کو تکتی تھیں
اور کہتی تھیں
اپنی آنکھوں کو بند رکھنا
مجھے بس دیکھنے دینا
اور
دھیرے سے
میرے ماتھے کو
اپنے ہونٹوں سے چھو کر
تم
اپنے پیارے ہاتھوں سے
چھپانے کے لیے خود کو
میری آنکھوں کو دیکھتی تھی
وہ لمحے یاد کرتا ہوں
میں اب تنہا ہوں
بہت مصروف رہتا ہوں
صبح سے شام تک
اس دھوپ میں خود کو رکھتا ہوں
تھکن سے چور ہو کے
لوٹ کے جب گھر کو آتا ہوں
اداسی کے گھنے بادل
میرے دل پہ برستے ہیں
انہی بادلوں سے بچنے کو
لگا کے شعلہ ہونٹوں سے
میں چھت پہ بھاگ جاتا ہوں
ٹہلتا ہوں
بہت بیچین ہوتا ہوں
تمہی کو یاد کرتا ہوں
کہ
تم ہوتی تو یہ ہوتا
کہ
تم ہوتی تو وہ ہوتا

Friday, March 27, 2015

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے

ہم کریں بات دلیلوں سے ،تو رد ہوتی ہے 
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح 
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے
اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے 
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے
جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا 
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس 
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

بوڑھا شیر

بوڑھا شیر

جب میری عمر دس برس تھی تو میں نے پہلی بار یہ سوچا کہ جب میں چھوٹا سا بچہ تھا وہ وقت اچھا تھا.کوئی پریشانی نہیں تھی.نا سکول نا پڑھائی یہاں تک کہ دین و دنیا کی فکر نہیں تھی.نماز تک فرض نہیں تھی مجھ پہ..ہر فکر پریشانی سے آزاد سب کی محبتوں کا مرکز تھا میں..اور اب سکول پڑھائی نماز روزہ سب زمہ داریاں ہیں مجھ پے......پھر وقت گزرتا گیا میں بیس برس کا ہو گیا.ایسا لگنے لگا وہ دس برس کی عمر ہی اچھی تھی کم سے کم نوکری روزی روٹی کی تو فکر نہیں تھی.سکول کالجز پڑھائی سے تو جان چھوٹ گئی ہے مگر اب مذہبی فرائض کے علاوہ روزی روٹی کی زمہ داری گلے پڑ گئی ہے.اسی کشمکش میں میری عمر تیس برس ہو گئی اور میں سوچنے لگا کہ بیس برس والی ہی زندگی اچھی تھی.اب ماں باپ کے علاوہ بیوی بچوں کی بھی زمہ داری مجھ پہ ہے.اور ایسا بھی لگنے لگا ہے کہ بڑھاپا قریب آنے لگا پھر میں چالیس برس کا ہو گیا پچے جوان ہونے لگے اخراجات بڑھ گئے.اب بچوں کے مستقبل کی فکر کھانے لگی.پھر وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کی شادی کی فکر پریشانی آن پڑی.

پھر جب میں ان تمام زمہ داریوں فارغ ہو گیا تو مجھے پتہ چلا کے میں تو کسی کام کا نہیں رہا بوڑھا ہو گیا ہوں.بس اسی طرح میں نے اپنی ساری زندگی ماضی پہ آنسو بہاتے اور مستقبل کی پلانگ کرتے ہی گزار دی.اس دوران میں تو بھول ہی گیا کہ میرے حال میں رب نے مجھے جن نعمتوں سے نوازا تھا ان کا شکر بھی ادا کرنا تھا..موت کے بعد ہونے والے امتحان کی تیاری بھی کرنی تھی.اب میں بوڑھے شیر کی طرح جب شکار کے قابل نہیں رہا تو مجھے زندگی کا اصل مقصد یاد آیا..اور میں موت کا انتظار کرنے لگا...

اللہ تعالی ہمارے گناہ معاف فرمائے ......آمین

تم ہادی برحق کوصدا کیوں نہیں دیتے

اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے 
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے 
اس جشنِ چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے 
ان جهوٹے چراغوں کو بجها کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کایہ عذر سنا جائے گا کب تک 
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے 
چہروں پہ جو جو ڈالےہوئے بیٹھے ہیں نقاب
ان لوگوں کو محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے 
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہو 
سجدے میں جبینوں کو جهکا کیوں نہیں دیتے
یہ جهوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ 
تم ہادی برحق کوصدا کیوں نہیں دیتے

پروفیسر اقبال عظیم

Monday, March 23, 2015

جب درد پرانے ہو بیٹھے

جب درد پرانے ہو بیٹھے
جب`یاد کا جگنو راکھ ہوا
جب آنکھ میں اآنسو برف ہوے
جب زخم سے دل مانوس ہوا
تب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا !
جب کرب کی لمبی راہوں میں
احساس کے بال سفید ہوے
جب آنکھیں 'بے سیلاب ہوئیں
جب چاند چڑھا بے دردی کا
جب ریت پہ لکھی یادوں کو
بے مہر ہوا نے چھین لیا
جب 'یاد رتیں' بے داد ہوئیں
تب مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں!!
پھر دل کو دھڑکنا یاد آیا
جب آنکھیں کچھ آباد ہوئیں
جب پہ مجھ کھلا میں زندہ ہوں
احساس کا بچپن جاگ پڑا
پھرجذبے بے تقویم ہوے!
پھر وقت نے کچھ انگڑائی لی
پھر سوچ کی قبر سےدھول اڑی
پھرپیاس کا برزخ بھول گیا
ایک ہجر سےکیا آزاد ہوے؟
سو ہجر نے ایجاد ہوے!
پھر اشک میں دریا قید ہوا
پھر دھڑکن میں بھونچال پڑے
پھر عشق کاجوگی گلیوں میں..
تقدیر کے سانپ اٹھا لایا
پھر ہوش کا جنگل سبز ہوا
پھر `شوق درینہ جاگ اٹھا.
پھر زلف کے تیور شام بنے
اس شام میں پھرمہتاب چڑھا
پھر ہونٹ کی لرزش , گیت بنی
پھر شعر، شعور کا ورد ہوا
پھر خون سے لکھے جذبے بھی نیلام ہوۓ
پھر درد "زلیخا "بن بیٹھا
پھر قرب کا کرب جوان ہوا
پھر مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں
کچھ ہجر کی نبضیں تیز ہوئیں
جب قید کو تازہ عمر ملی
اس قیدی عمر کے بختوں نے.
اک شامِ سہور سے پوچھ لیا
قید ہی رہنا تھا ...تو ہمیں
وہ پچھلا ہجر ہی کافی تھا
کیوں پچھلے جال کو چھوڑا تھا
کس عهد پہ پنجرہ توڑا تھا؟
جب جال تیری کمزوری تھے ..
صیّاد کو کیوں بدنام کیا
اب سوچ رہا ہوں مدّت سے
کیوں مجھ پہ کھلا میں زندہ ہوں؟
کیوں دل کو دھڑکنا یاد آیا.

Sunday, March 22, 2015

معاف کرنا تو اللہ کا معاف کرنا ھے

معاف کرنا تو اللہ کا معاف کرنا ھے

اللہ جیسا اس پوری کائنات میں توبہ قبول کرنے والا اور معاف کرنے والا کوئی نہیں ، اسی لئے اللہ سوھنا بار بار فرماتا ، انہ ھو التواب الرحیم ،، در اصل وھی تو ھے توبہ قبول کرنے والا رحم کرنے والا

باقی جس سے ھم معافی مانگتے ھیں وہ اس اعتبار پہ معاف کرتا ھے کہ شاید ھم آئندہ یہ غلطی پھر نہیں کریں گے

پھر جب ھم کوئی غلطی کرتے ھیں تو وہ معاف کرنے والا وہ پچھلی غلطیاں نئے سرے سے فہرست میں ڈال لیتا ھے اور طعنے مار مار کر مار دیتا ھے ،، چاھے وہ والدین ھوں یا شوھر یا بیوی یا بھائی یا استاد

میرا کریم رب فرماتا ھے کہ مجھے پتہ بھی ھوتا ھے کہ یہ غلطی تم پھر دوبارہ بھی کرو گے ،، مگر میری محبت دیکھو میں پھر بھی تمہیں جانتے بوجھتے معاف کر دیتا ھوں ،، پھر جب تم وہ غلطی دوبارہ کرتے ھو تو بس اسی کو لکھواتا ھوں پچھلی کا کوئی تذکرہ نہیں ھوتا ، کوئی طنز کا نشتر نہیں چلایا جاتا

" وَ هُوَ الّذِى يَقْبَلُ التّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَ يَعْفُوا عَنِ السيِّئَاتِ وَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ . " - الشورى : 25

اور وھی ھے جو قبول کرتا ھے اپنے بندوں سے اور درگزر کرتا ھے خطاؤں سے درآںحالیکہ وہ جانتا تم کیا کرو گے

ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ

ﻣﺠﮭﮯ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﺠﮭﮯ ﺗﻢ ﭼﮭﻮﮌ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮ
ﺟﻮ ﺩﻝ ﮐﺎ ﺩﻝ ﺳﮯ ﺭﺷﺘﮧ ﺗﮭﺎ
ﺍﺳﮯ ﺗﻢ ﺗﻮﮌ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮ
ﻣﯿﺮﯼ ﺟﺎﻧﺐ ﺳﮯ ﺭﺥ ﺍﭘﻨﺎ
ﭘﺘﮧ ﮨﮯ ﻣﻮﮌ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮨﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺍﺣﺴﺎﺱ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﮐﮧ ﺗﻢ ﻣﺠﺒﻮﺭ ﮨﻮ ﮐﺘﻨﮯ
ﻧﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺑﮯ ﻭﻓﺎﺋﯽ ﮐﯽ
ﻧﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﻋﮩﺪ ﺗﻮﮌﺍ ﮨﮯ
ﻧﺒﮭﺎﻧﺎ ﺳﺎﺗﮫ ﮐﺎ ﺷﺎﯾﺪ
ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺑﺲ ﻣﯿﮟ ﮨﯽ ﮐﺐ ﺗﮭﺎ
ﯾﮧ ﺳﺐ ﻗﺴﻤﺖ ﮐﮯ ﭘﮭﯿﺮﮮ ﮨﯿﮟ
ﻣﮕﺮ ﯾﮧ ﺩﻝ ﻣﯿﺮﺍ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺧﻮﺍﺏ ﮨﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﯿﺮﮮ ﺟﯿﻮﻥ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺍﺏ ﺗﮏ
ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﺁﺱ ﮨﮯ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﻨﺎﺟﺎﺗﯿﮟ ﻣﯿﺮﯼ ﺳﺐ ﮨﯽ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﻧﺎﻡ ﮨﯿﮟ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺑﺘﺎﺋﻮ ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﺑﺪﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻃﺮﺯِ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺍﭘﻨﺎ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ سحر ﻣﯿﮟ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺟﻮ ﯾﻮﮞ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﯽ
ﻋﺎﺩﺕ ﮨﮯ
ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻞ ﮐﺮ
ﻣﯿﺮﮮ ﺍﺱ ﻣﺴﺌﻠﮯ ﮐﺎ ﺣﻞ ﺑﺘﺎ ﺟﺎﺅ

۲۳ مارچ اِک عہد ہمیں پھر کرنا ہے

اِک عہد کیا تھا لاکھوں نے
اِس پاک وطن کی مٹی سے
وہ عہد ہمیں پھر کرنا ہے
اِس دیس کی خاطر جینا ہے
اِس دیس کی خاطر مرنا ہے
اِک عہد ہمیں پھر کرنا ہے

ہوں طاقتور نادار یہاں
اور لیڈر ہوں خوددار یہاں
ہر شہری کو انصاف ملے
ہو امن محبت پیار یہاں
اب پیار کے تازہ پھُولوں سے
خدمت کے نئے اصولوں سے
اِس دیس کا دامن بھرنا ہے
اِک عہد ہمیں پھر کرنا ہے

ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

ﻻ‌ﮐﮫ ﺿﺒﻂ ﺧﻮﺍﮨﺶ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﺷﻤﺎﺭ ﺩﻋﻮﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺑﮭﻮﻝ ﺟﺎﻧﮯ ﮐﮯ
ﺑﮯ ﭘﻨﺎﮦ ﺍﺭﺍﺩﮮ ﮨﻮﮞ
ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﻮ ﺗﺮﮎ ﮐﺮ ﮐﮯ ﺟﯿﻨﮯ ﮐﺎ
ﻓﯿﺼﻠﮧ ﺳﻨﺎﻧﮯ ﮐﻮ
ﮐﺘﻨﮯ ﻟﻔﻆ ﺳﻮﭼﮯ ﮨﻮﮞ
ﺩﻝ ﮐﻮ ﺍﺳﮑﯽ ﺁﮨﭧ ﭘﺮ
ﺑﺮ ﻣﻼ‌ ﺩﮬﮍﮐﻨﮯ ﺳﮯ ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﭘﮭﺮ ﻭﻓﺎ ﮐﮯ ﺻﺤﺮﺍ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺮﻡ ﻟﮩﺠﮯ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﮔﻮﺍﺭ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﯽ
ﺧﻮﺷﺒﻮﺅﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﻧﮯ ﮐﯽ
ﺟﺴﺘﺠﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﮨﻨﮯ ﺳﮯ
ﺭﻭﺡ ﺗﮏ ﭘﮕﮭﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﻧﻨﮕﮯ ﭘﺎﺅﮞ ﭼﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ
ﺁﻧﺴﻮﺅﮞ ﮐﯽ ﺑﺎﺭﺵ ﻣﯿﮟ
ﭼﺎﮨﮯ ﺩﻝ ﮐﮯ ﮨﺎﺗﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﮨﺠﺮ ﮐﮯ ﻣﺴﺎﻓﺮ ﮐﮯ
ﭘﺎﺅﮞ ﺗﮏ ﺑﮭﯽ ﭼﮭﻮ ﺁﺅ
ﺟﺲ ﮐﻮ ﻟﻮﭦ ﺟﺎﻧﺎ ﮨﻮ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﺩﻭﺭ ﺟﺎﻧﮯ ﺳﮯ
ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﺪﻟﻨﮯ ﺳﮯ
ﺩﻭﺭ ﺟﺎ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﺳﮯ
ﮐﻮﻥ ﺭﻭﮎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ

جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں

جب کانچ اٹھانے پڑ جائیں
تم ہاتھ ہمارے لے جانا
جب سمجھو کہ کوئی ساتھ نہیں
تم ساتھ ہمارا لے جانا
جب دیکھو کے تم تنہا ہو
اور راستے ہیں دشوار بہت
تب ہم کو اپنا کہہ دینا
بے باک سہارا لے جانا
جو بازی بھی تم جیتو گے
جو منزل بھی تم پاؤ گے
ہم پاس تمہارے ہوں نہ ہوں
احساس ہمارا لے جانا
اگر یاد ہماری آجائے
تم پاس ہمارے آجانا
بس اک مسکان ہمیں دینا
پھر جان بھی چاہے لے جانا

عشق اور محبت

عشق اور محبت

واہ دو جذبے اور جذبات سے گندھے ہوئے جذبے

ایک جس میں پھولوں سی نرمی، ماں کی گود کی آنچ جیسی گرمی، کہ جس میں لہروں کی آواز موسیقی لگے، ماں ڈانٹے تو مسکرا جائیں
ہر وقت اچھا لگے۔۔۔ فون بجے تو دل دھڑکے، دروازے کی ہر دستک پہ چونکنا ۔۔ واہ

دوسرا جذبہ جس میں ایک کی ہستی دوسرے کی مستی پر وارے جاتی ہے
گل و گلزار ہونے کو مٹی میں ملنا ہوتا ہے
کہیں تپتے تھل میں بھٹکنا ہوتا ہے
تو کہیں کسی کے عشق میں اسی کے کہنے پر دار پر کھنچنا پڑتا ہے
دوئی پاس پھٹکتی نہیں، ذات کہیں ٹکتی نہیں اسی پر نگاہ رہتی ہے
آنکھ بند ہو تو سامنے ہوتا ہے کھلی ہو تو بھی ہٹنے کا سوال ہی نہیں
تکلیف میں سکون ، سکون میں قرب ہوتا ہے
اس کے حصے کی تکلیفوں کو اپنا کر راحت ملتی ہے، اس کی رضا رہ جاتی ہے
میں مُک جاتی ہے
جو وہ کہے کرنا ہوتا ہے، جو مانگے دینا ہوتا ہے

"جے یار میرا، مرے دُکھ وِچ راضی
سُکھ نوں چُلھے پاواں"
(اگر میرا یار میرے دُکھ میں راضی ہے توسُکھ کو چولہے میں جھونک دوں)

کسی نے کبھی بتایا تھا لفظ "عشق" کا مفہوم
ع: عبادت
ش: شرع
ق: قربانی

ﻣﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﺮﮮ ﺳﺎﺗﮭﯽ
ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ، ﻣﺮﯼ ﺳﻮﭼﯿﮟ، ﻣﺮﺍ ﺗﻦ ﻣﻦ
ﻣﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮨﻢ ﭘﺮ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﻤﮯ ﮔﺰﺭﺍ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ , ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮐﺐ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﺎﻝ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻣﻨﻈﺮ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺍﺫﯾﺖ ﻧﺎﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮨﻮ ﺷﺎﯾﺪ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﺳﮯ
ﺗﺮﮮ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺟﻤﯽ ﺟﺐ ﺑﺮﻑ ﭘﮕﮭﻠﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺳﯿﻼﺏ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺮﺩﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﯿﻼﺏ ﮐﯽ ﺍﮎ ﻣﻮﺝ
ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ ﮐﺮ
ﺗﺮﯼ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﺗﺮﮮ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺁ ﮐﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻤﻨﺎﻡ ﻣﻨﺰﻝ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ ! ﯾﻘﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﮐﺜﺮ
ﺗﺮﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﮐﯽ ﻭﮦ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ
ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺷﺐ ﺑﮭﺮ ﺟﮕﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ

Saturday, March 21, 2015

ﻣﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ

ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﻣﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﻣﺮﮮ ﺳﺎﺗﮭﯽ
ﻣﺮﯼ ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ، ﻣﺮﯼ ﺳﻮﭼﯿﮟ، ﻣﺮﺍ ﺗﻦ ﻣﻦ
ﻣﺮﺍ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﮨﮯ
ﺍﺳﯽ ﺩﻥ ﺳﮯ ﮐﮧ ﺟﺐ ﮨﻢ ﭘﺮ
ﺟﺪﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺳﻤﮯ ﮔﺰﺭﺍ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ , ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺗﻮ ﯾﺎﺩ ﮨﯽ ﮨﻮ ﮔﺎ
ﻣﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮐﺐ ﺗﮭﺎ ﻣﮕﺮ ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺟﺐ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭘﮍﺍ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ
ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﮔﺎﻝ ﭘﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺟﻮ ﻣﻨﻈﺮ ﺁﺧﺮﯼ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺍﺫﯾﺖ ﻧﺎﮎ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﮭﺎ
ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﯾﺎﺩ ﮨﻮ ﺷﺎﯾﺪ
ﺑﭽﮭﮍﺗﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺍﺱ ﺩﮬﯿﻤﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﺳﮯ
ﺗﺮﮮ ﺩﻝ ﭘﺮ ﺟﻤﯽ ﺟﺐ ﺑﺮﻑ ﭘﮕﮭﻠﯽ ﺗﮭﯽ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺟﺬﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﺩﺭﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﮎ ﺳﯿﻼﺏ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﺮﺩﺍﺏ ﺁﯾﺎ ﺗﮭﺎ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﺳﯿﻼﺏ ﮐﯽ ﺍﮎ ﻣﻮﺝ
ﺗﯿﺮﯼ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮯ ﺳﺎﺣﻞ ﺳﮯ ﭨﮑﺮﺍ ﮐﺮ
ﺗﺮﯼ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﮯ ﺭﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﺗﺮﮮ ﺭﺧﺴﺎﺭ ﭘﺮ ﺁ ﮐﺮ
ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻤﻨﺎﻡ ﻣﻨﺰﻝ ﮈﮬﻮﻧﮉﻧﮯ ﻟﻤﺒﮯ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ
ﻣﮕﺮ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﻈﺮ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ
ﺳﻨﻮ ﺟﺎﻧﺎﮞ ! ﯾﻘﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮ
ﮐﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺍﮐﺜﺮ
ﺗﺮﮮ ﺁﻧﺴﻮ ﮐﯽ ﻭﮦ ﻟﻤﺒﯽ ﻣﺴﺎﻓﺖ
ﯾﺎﺩ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﺷﺐ ﺑﮭﺮ ﺟﮕﺎﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﺠﮭﮯ ﭘﺎﮔﻞ ﺑﻨﺎﺗﯽ ﮨﮯ