Thursday, March 12, 2015

مجھے تم سے محبت ہے

تمہیں ضد ہے کہ میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے
نہیں یہ جانتے دونوں
محبت کب بھلا محتاج ہے لفظوں کی باتوں کی
محبت تو ہماری دھڑکنوں کے ساز میں شامل
سریلے گیت کی مانند
محبت یاد کی دیوی
جو تنہا رات کو اکثر اتر آتی ہے آنکھوں میں
محبت مسکراہٹ ہے حسیں نازک سے ہونٹوں میں
محبت صندلی ہاتھوں کی نازک لرزشوں میں ہے
محبت سوچ کی گہرائیوں سے پھوٹتی خوشبو
ہمیشہ ساتھ رہتی ہے
محبت آنکھ میں پلتا وہ پراسرار جزبہ ہے
جسے اب تک نہیں کوئی سمجھ پایا
نہ اس کی کوئی صورت ہے
نہ اس کا کوئی پیمانہ
ڈھکے الفاظ میں اسکا بہت اظہار ہوتا ہے
کچھ ایسے ہی کہ جیسے اب
تہہِ دل سے تو ہم دونوں بہت اقرار کرتے ہیں
مگر پھر بھی نہ جانے کیوں
تمہیں ضد ہے میں کہہ دوں
مجھے ضد ہے کہ تم کہہ دو
مجھے تم سے محبت ہے
کہو مجھ سے محبت ہے


No comments:

Post a Comment