Friday, March 20, 2015

انسان کی شخصیت پر اور اُس کی شخصیت میں برے اور اچھے ساتھیوں کااثر!

انسان کی شخصیت پر اور اُس کی شخصیت میں برے اور اچھے ساتھیوں کااثر!

انسان کی شخصیت پر اور اُس کی شخصیت میں برے اور اچھے ساتھیوں کااثر کچھ اس قدر زیادہ ہوتا ہے کہ ایک وقت آتا کہ انسان بالکل اپنے ساتھیوں جیسا ہی ہو کر رہ جاتا ہے ،
علوم ء نفسیات کے ماہرین اس أہم نکتے پر بہت کچھ کہتے رہے ہیں اور کہتے رہتے ہیں ، لیکن حق یہ ہے کہ انسانی نفیسات کے بارے میں اس عظیم حقیقت کی اطلاع سب سے پہلے کائنات کے خالق و مالک کی طرف سے سچائی کی تصدیق پائی ہوئی ، کائنات کی سب سے سچی ہستی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے ایک بہت ہی دل پذیر اور انتہائی عام فہم انداز میں ، بہترین مثال دے کر فرمائی کہ

اچھے ساتھی ، اور بُرے ساتھی کی مثال اِس طرح ہے جیسے کہ خُوشبو بیچنے والا ، اور بھٹی جھونکنے والا ، کہ خُوشبُو بیچنے والا یا تو تُمہیں خُوشبُو دے گا ،یا تُم اُس سے خُوشبُو خریدو گے (اور خود کو معطر کرو گے )اور یا اُس سے خُوشبُو (میں سے کچھ نہ کچھ )پا لو گے ، اور بھٹی جھونکنے والا یا تو تُمہارے کپڑے جلائے گا ، یا تُم اُس سے بُری بُو پا لو گے )))))صحیح البخاری/حدیث 5534/کتاب الذبائح/باب30، صحیح مُسلم/حدیث6860/ کتاب البر و الصلۃ و الادب/باب45،

اس حدیث شریف میں یہ تعلیم فرمائی گئی کہ اگر اپنے ظاہر و باطن کی اصلاح چاہیے ، اپنے نفس کی خیر میں مددگاری چاہیے تو نیکو کار لوگوں کو اپنے ساتھی بناؤ ، برے لوگوں کا ساتھ برائی کا ہی سبب بنے گا ، حتیٰ کہ اپنے دِین تک سے بھی ہاتھ دھو بیھٹتا ہے اور اپنے ساتھیوں ، دوستوں ، ہم مجلس لوگوں کے دِین پر ہو جاتا ہے ،

اور اس عظیم حقیقت کا اظہار بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ز ُبان مُبارک سے کروایا کہ (((((الرَّجُلُ عَلَى دِينِ خَلِيلِهِ فَلْيَنْظُرْ أَحَدُكُمْ مَنْ يُخَالِلُ:::اِنسان اپنے دوست کے دِین پر ہی ہوجاتا ہے لہذا تُم میں سے ہر کوئی دیکھ لے کہ وہ کس کے ساتھ دوستی رکھتا ہے)))))سُنن ابو داؤد /حدیث4835/کتاب الأدب/باب19، سُنن الترمذی /حدیث 2552/کتاب الزُھد/باب45،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے """ حَسن """ قرار دِیا ،

پس ہر انسان کو اپنی اور دوسروں میں موجود کمیوں اور غلطیوں کی پہچان ہونی چاہیے ، اور انہیں تسلیم کرتے ہوئے اُن کی اصلاح کی ہمت رکھنی چاہیے ،اور اپنے نفس کی خیر کے لیے ، اپنی دُنیا اور آخرت کے معاملات میں اچھائی ، نیکی ، اور دائمی فوائد کے حصول میں مددگاری کے لیے ایسے انسانوں کو اپنا ساتھی اور دوست اپنانا چاہیے جن میں یہ صلاحیت موجود ہو ، کہ وہ اپنی کمیوں اور غلطیوں کی پہچان رکھتے ہوں ، اپنے دوستوں کی کمیوں اور غلطیوں کی پہچان رکھتے ہوں اور کسی منفی طریقے کو اپنائے بغیر ، کسی فساد کا سبب بنے بغیر اُن کی اصلاح کرنے اور کروانے والے ہوں ،

یقین جانیے کہ ایسے نیک اوردرست عقل رکھنے والے ساتھی ہم سب کے دِین ،دُنیا اور آخرت کی کامیابی کا ایک بڑا سبب ہیں ، خاص طور پر ایسے لوگ جنہیں اللہ تعالیٰ نے مُسلمانوں ، اور انسانوں کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ہے

جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیےنیکو کار سچا نیکی پر مدد کرنے والا وزیر مہیا کر دیتا ہے ، کہ اگر حاکم (خیر کا )کوئی کام یا بات بُھول جائے تووزیر اُسے یاد کروا دے ، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وزیروہ کام کرنے میں اُس کی مدد کرے ، اور اگر اللہ حاکم کے ساتھ اِس کے عِلاوہ معاملے کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مہیا کر دیتا ہے جو حاکم کو(خیر کا )کوئی کام یا بات بُھولنے کی صُورت میں یاد نہیں کرواتا ، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وہ کام کرنے میں اُس کی مدد نہیں کرتا )))))سُنن ابو داؤد/حدیث2934 /کتاب الخراج/باب4،اِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے "صحیح " قرار دِیا ، صحیح ابن حبان /حدیث4494،
خیال رہے کہ یہ معاملہ صرف مُسلمانوں کے درمیان کا ہے ، جیسا کہ مُسند احمد کی روایت میں وضاحت سے بیان ہے کہ (((((مَنْ وَلاَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنْ أَمْرِ الْمُسْلِمِينَ شَيْئاً فَأَرَادَ بِهِ خَيْرًا جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ فَإِنْ نَسِىَ ذَكَّرَهُ وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ ::: جسے اللہ عَزَّ و جَلَّ مُسلمانوں کے معاملات میں سے کسی معاملے میں حاکم بناتا ہے اور اُس حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیےنیکو کار سچا نیکی پر مدد کرنے والا وزیر مہیا کر دیتا ہے ، کہ اگر حاکم (خیر کا )کوئی کام یا بات بُھول جائے تووزیر اُسے یاد کروا دے ، اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وزیروہ کام کرنے میں اُس کی مدد کرے)))))مُسند احمد/حدیث25147 ،

یہ معاملہ ہر دو ایسے اشخاص کا ہے جن میں سے ایک وہ ہوتا ہے جو براہ راست کوئی کام کرنے یا کروانے کا ذمہ دار ہوتا ہے اور دوسرا وہ جو اُس کا ساتھی اور اُس کو مشورہ دینے والا ہوتا ہے ، پس اگر ساتھی اچھا ہو گا تو اپنے ساتھی کو خیر کے کام کرگذرنے میں کوتاہی نہیں کرنے دے گا ، اور اگر ساتھی بُرا ہو گا تو اپنے ساتھی کو نیکی کی راہ پر نہیں چلنے دے گا بلکہ کسی نیکی یا اچھائی کا مشورہ تک بھی نہ دے گا،
اچھے ساتھی اپنے ساتھیوں ، دوستوں ، اور ہم محفل و ہم مجلس لوگوں کو نیکی اور اچھائی کی طرف ہی بلاتے ہیں اور ہر ایسے کام سے اچھے طریقے سے روکتے ہیں جو کام دینی ، دُنیاوی اور بالخصوص اُخروی طور پر کسی نُقصان والا ہو ،

پس ہماری اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہوا کہ اگر ہم اپنے نفوس کی خیر ، اور اصلاح چاہتے ہیں ، اور اپنی دینی ، دُنیاوی اور اُخروی کامیابی چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے لیے سچے اِیمان والے ، نیکو کار ، اوردرست عقل والے ساتھی ، دوست، اور ہم مجلس اپنانے چاہیں ۔ .

No comments:

Post a Comment