سُنو میں تھک گیا ہوں
مری پلکوں پہ اب تک کچھ ادھُورے خواب جلتے ہیں
مری نیندوں میں تیرے وصل کا ریشم اُلجھتا ہے
مرے آنسو، مرے چہرے پہ تیرے غم کو لِکھتے ہیں
مرے اندر کئی صدیوں کے سنّاٹوں کا ڈیرہ ہے
مرے الفاظ بانہیں وا کیے مجھ کو بُلاتے ہیں
مگر میں تھک گیا ہوں
اور میں نے خامُشی کی گود میں سر رکھ دیا ہے
میں بالوں میں تمہارے ہِجر کی نرم اُنگلیاں محسوس کرتا ہوں
مری پلکوں پہ جلتے خواب ہیں اب راکھ کی صورت
تمہارے وصل کا ریشم بھی اب نیندیں نہیں بنتیں
مری آنکھوں میں جیسے تھر کے موسم کا بسیرا ہے
مجھے اندر کے سنّاٹوں میں گہری نیند آتی ہے
سُنو
اس یاد سے کہہ دو
مجھے کچھ دیر سونے دے.
No comments:
Post a Comment