Tuesday, March 17, 2015

کہانی ٹوٹ جاتی ہے

ہوائیں رقص کرتی ہیں 
روانی سے 
سیہ بادل امنڈتے ہیں 
افق کی نیلگوں معدوم ہوتی بے کرانی سے 
سنہری دھوپ کی تختی پہ نیلی بارشوں کے گیت لکھتے ہیں 
پرندے یاد رکھتے ہیں زمینوں کو نشانی سے 
سمندر ساحلوں پر ختم ہوتے ہیں 
جزیرے ڈوب جاتے ہیں کہیں آنکھوں کےپانی سے 
سنو بچو ! کہانی ٹوٹ جاتی ہے 
ذرا سی بے دھیانی سے !

No comments:

Post a Comment