Sunday, March 1, 2015

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں

اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
اُس جھیل کنارے پل دو پل
اک خواب کا نیلا پھول کھلے
وہ پھول بہا دیں لہروں میں
اک روز کبھی ہم شام ڈھلے
اُس پھول کے بہتے رنگوں میں
جس وقت لرزتا چاند چلے
اُس وقت کہیں ان آنکھوں میں
اُس بسرے پل کی یاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو
پھر چاہے عمر سمندر کی
ہر موج پریشاں ہوجائے
پھر چاہے آنکھ دریچے سے
ہر خواب گریزاں ہوجائے
پھر چاہے پھول کے چہرے کا
ہر درد نمایاں ہوجائے
اُس جھیل کنارے پل دو پل
وہ روپ نگر ایجاد تو ہو
دن رات کے اس آئینے سے
وہ عکس کبھی آزاد تو ہو
اُن جھیل سی گہری آنکھوں میں
اک شام کہیں آباد تو ہو

No comments:

Post a Comment