Monday, March 16, 2015

اک بار جینا چاہتا ہے

موت بر حق ہے
مرے مالک
بلاوا جب بھی آئے
مجھ کو بس لبیک کہنا ہے
کہ جتنی زندگی پائی
ضرورت بھر کو کافی تھی
بہت سے کام پورے ہو گئے
تھوڑے ادھورے ہیں
زمیں ساری نہیں دیکھی
مگر قسمت میں جتنے بھی لکھے تھے
خواب دیکھے ہیں
بہت ہی کم ملے
پر دوست اچھے ہی ملے
گو دشمنوں کی کچھ فراوانی ہے
لیکن خیر، انہیں کے دم سے کار ِزندگانی ہے
ملے سنگ ِملامت تو
کبھی انعام بھی پایا
بہت شہرت نہیں پائی
مگر اک نام بھی پایا
بنایا آشیانہ پھر اسے جلتے ہوئے دیکھا
مگر آغوش میں
غنچوں کو بھی کھلتے ہوئے دیکھا
سو اب اس زندگی سے
کوئی بھی شکوہ نہیں مجھ کو
ترا فرمان آنے پر ۔۔۔ مجال ِسرکشی تو کیا
ذرا تاخیر کا یارا نہیں مجھ کو

مگر مالک
یہ میرا دل
کہ جو اس کارزار ِزندگی میں
اک مجاہد کی طرح لڑتا رہا
اک بار دل بن کر دھڑکنا چاہتا ہے
یہ چراغ ِآخر ِشب کی طرح
بجھنے سے پہلے
صرف اک پَل کو بھڑکنا چاہتا ہے
عمر کا پیاسا ہے اور
اک آتش ِسیّال پینا چاہتا ہے
موت سے پہلے ۔۔۔ فقط اک بار
بس اک بار جینا چاہتا ہے

No comments:

Post a Comment