موت بر حق ہے
مرے مالک
بلاوا جب بھی آئے
مجھ کو بس لبیک کہنا ہے
کہ جتنی زندگی پائی
ضرورت بھر کو کافی تھی
بہت سے کام پورے ہو گئے
تھوڑے ادھورے ہیں
زمیں ساری نہیں دیکھی
مگر قسمت میں جتنے بھی لکھے تھے
خواب دیکھے ہیں
بہت ہی کم ملے
پر دوست اچھے ہی ملے
گو دشمنوں کی کچھ فراوانی ہے
لیکن خیر، انہیں کے دم سے کار ِزندگانی ہے
ملے سنگ ِملامت تو
کبھی انعام بھی پایا
بہت شہرت نہیں پائی
مگر اک نام بھی پایا
بنایا آشیانہ پھر اسے جلتے ہوئے دیکھا
مگر آغوش میں
غنچوں کو بھی کھلتے ہوئے دیکھا
سو اب اس زندگی سے
کوئی بھی شکوہ نہیں مجھ کو
ترا فرمان آنے پر ۔۔۔ مجال ِسرکشی تو کیا
ذرا تاخیر کا یارا نہیں مجھ کو
مگر مالک
یہ میرا دل
کہ جو اس کارزار ِزندگی میں
اک مجاہد کی طرح لڑتا رہا
اک بار دل بن کر دھڑکنا چاہتا ہے
یہ چراغ ِآخر ِشب کی طرح
بجھنے سے پہلے
صرف اک پَل کو بھڑکنا چاہتا ہے
عمر کا پیاسا ہے اور
اک آتش ِسیّال پینا چاہتا ہے
موت سے پہلے ۔۔۔ فقط اک بار
بس اک بار جینا چاہتا ہے
No comments:
Post a Comment