تمہی کو یاد کرتا ہوں
میں
اکثر رات کو
تنہا اکیلے میں
تم ہی کو یاد کرتا ہوں
تمہاری جھیل سی شرماتی آنکھوں کو
جو مجھ کو دیکھ کر
ایک پل
حیا کے لال پردوں میں
سمٹ سی جاتی تھی
تمھارے ہاتھ کے ٹھنڈے پسینے
جو تنہا دیکھ کر مجھ کو
بڑی چاہت سے آتے تھے
میں
جونہی ہاتھ میں اپنے
تمہارا ہاتھ لیتا تھا
میرے ہاتھوں کی گرمی سے
پسینے بھاپ بن کے
اس فضا میں کھو سے جاتے تھے
انہی کو یاد کرتا ہوں
وہ جب تھک کر
تمہاری گود میں سر رکھ کے سوتا تھا
تم اپنی زلف کی ٹھنڈی ہواؤں کے
ہزاروں قافلے لے کر میرے چہرے پہ جھکتی تھیں
بڑے ہی پیار سے
جب مجھ کو تکتی تھیں
اور کہتی تھیں
اپنی آنکھوں کو بند رکھنا
مجھے بس دیکھنے دینا
اور
دھیرے سے
میرے ماتھے کو
اپنے ہونٹوں سے چھو کر
تم
اپنے پیارے ہاتھوں سے
چھپانے کے لیے خود کو
میری آنکھوں کو دیکھتی تھی
وہ لمحے یاد کرتا ہوں
میں اب تنہا ہوں
بہت مصروف رہتا ہوں
صبح سے شام تک
اس دھوپ میں خود کو رکھتا ہوں
تھکن سے چور ہو کے
لوٹ کے جب گھر کو آتا ہوں
اداسی کے گھنے بادل
میرے دل پہ برستے ہیں
انہی بادلوں سے بچنے کو
لگا کے شعلہ ہونٹوں سے
میں چھت پہ بھاگ جاتا ہوں
ٹہلتا ہوں
بہت بیچین ہوتا ہوں
تمہی کو یاد کرتا ہوں
کہ
تم ہوتی تو یہ ہوتا
کہ
تم ہوتی تو وہ ہوتا
No comments:
Post a Comment