Saturday, March 28, 2015

تمہی کو یاد کرتا ہوں

تمہی کو یاد کرتا ہوں

میں
اکثر رات کو
تنہا اکیلے میں
تم ہی کو یاد کرتا ہوں
تمہاری جھیل سی شرماتی آنکھوں کو
جو مجھ کو دیکھ کر
ایک پل
حیا کے لال پردوں میں
سمٹ سی جاتی تھی
تمھارے ہاتھ کے ٹھنڈے پسینے
جو تنہا دیکھ کر مجھ کو
بڑی چاہت سے آتے تھے
میں
جونہی ہاتھ میں اپنے
تمہارا ہاتھ لیتا تھا
میرے ہاتھوں کی گرمی سے
پسینے بھاپ بن کے
اس فضا میں کھو سے جاتے تھے
انہی کو یاد کرتا ہوں
وہ جب تھک کر
تمہاری گود میں سر رکھ کے سوتا تھا
تم اپنی زلف کی ٹھنڈی ہواؤں کے
ہزاروں قافلے لے کر میرے چہرے پہ جھکتی تھیں
بڑے ہی پیار سے
جب مجھ کو تکتی تھیں
اور کہتی تھیں
اپنی آنکھوں کو بند رکھنا
مجھے بس دیکھنے دینا
اور
دھیرے سے
میرے ماتھے کو
اپنے ہونٹوں سے چھو کر
تم
اپنے پیارے ہاتھوں سے
چھپانے کے لیے خود کو
میری آنکھوں کو دیکھتی تھی
وہ لمحے یاد کرتا ہوں
میں اب تنہا ہوں
بہت مصروف رہتا ہوں
صبح سے شام تک
اس دھوپ میں خود کو رکھتا ہوں
تھکن سے چور ہو کے
لوٹ کے جب گھر کو آتا ہوں
اداسی کے گھنے بادل
میرے دل پہ برستے ہیں
انہی بادلوں سے بچنے کو
لگا کے شعلہ ہونٹوں سے
میں چھت پہ بھاگ جاتا ہوں
ٹہلتا ہوں
بہت بیچین ہوتا ہوں
تمہی کو یاد کرتا ہوں
کہ
تم ہوتی تو یہ ہوتا
کہ
تم ہوتی تو وہ ہوتا

No comments:

Post a Comment