Friday, March 20, 2015

اسے ہم یاد کرتے ہیں

اسے کہنا

ہمارے پاؤں میں جو رستہ تھا
رستے میں پیڑ تھے
پیڑوں پہ جتنی طائروں کی ٹولیاں ہم سے ملا کرتی تھیں
اب وہ اڑتے اڑتے تھک گئی ہیں
وہ گھنی شاخیں جو ہم پہ سایہ کرتی تھیں
سب مرجھا گئی ہیں
تم اسے کہنا
لبوں پہ لفظ ہیں
لفظوں میں کوئی داستاں قصّہ کہانی جو اسے اکثر سناتے تھے
کسے جا کر سنائیں گے
بتائیں گے کہ ہم محرابِ ابرو میں ستارے ٹانکنے والے
درِ لب بوسۂ اظہار کی دستک سے اکثر کھولنے والے
کبھی بکھری ہوئی زلفوں میں ہم
مہتاب کے گجرے بنا کر باندھنے والے
چراغ اور آئینے کے درمیاں کب سے سرِ ساحل
کھڑے موجوں کو تکتے ہیں
اسے کہنا
اسے ہم یاد کرتے ہیں
اسے کہنا ہم آ کر خود اسے ملتے مگر
مقتل بدلتے موسموں کے خون میں رنگین ہے اور ہم
ایسے بہت سے موسموں کے درمیاں تنہا کھڑے ہیں
جانے کب بلاوا ہو!
ہم میں آج بھی اک عمر کی وارفتگی اور وحشتوں کا رقص جاری ہے
وہ بازی جو بساطِ دل پہ کھیلی تھی
ابھی ہم نے جیتی ہے نہ ہاری ہے
اسے کہنا
کبھی ملنے چلا آئے
اسے ہم یاد کرتے ہیں

No comments:

Post a Comment