بوڑھا شیر
جب میری عمر دس برس تھی تو میں نے پہلی بار یہ سوچا کہ جب میں چھوٹا سا بچہ تھا وہ وقت اچھا تھا.کوئی پریشانی نہیں تھی.نا سکول نا پڑھائی یہاں تک کہ دین و دنیا کی فکر نہیں تھی.نماز تک فرض نہیں تھی مجھ پہ..ہر فکر پریشانی سے آزاد سب کی محبتوں کا مرکز تھا میں..اور اب سکول پڑھائی نماز روزہ سب زمہ داریاں ہیں مجھ پے......پھر وقت گزرتا گیا میں بیس برس کا ہو گیا.ایسا لگنے لگا وہ دس برس کی عمر ہی اچھی تھی کم سے کم نوکری روزی روٹی کی تو فکر نہیں تھی.سکول کالجز پڑھائی سے تو جان چھوٹ گئی ہے مگر اب مذہبی فرائض کے علاوہ روزی روٹی کی زمہ داری گلے پڑ گئی ہے.اسی کشمکش میں میری عمر تیس برس ہو گئی اور میں سوچنے لگا کہ بیس برس والی ہی زندگی اچھی تھی.اب ماں باپ کے علاوہ بیوی بچوں کی بھی زمہ داری مجھ پہ ہے.اور ایسا بھی لگنے لگا ہے کہ بڑھاپا قریب آنے لگا پھر میں چالیس برس کا ہو گیا پچے جوان ہونے لگے اخراجات بڑھ گئے.اب بچوں کے مستقبل کی فکر کھانے لگی.پھر وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کی شادی کی فکر پریشانی آن پڑی.
پھر جب میں ان تمام زمہ داریوں فارغ ہو گیا تو مجھے پتہ چلا کے میں تو کسی کام کا نہیں رہا بوڑھا ہو گیا ہوں.بس اسی طرح میں نے اپنی ساری زندگی ماضی پہ آنسو بہاتے اور مستقبل کی پلانگ کرتے ہی گزار دی.اس دوران میں تو بھول ہی گیا کہ میرے حال میں رب نے مجھے جن نعمتوں سے نوازا تھا ان کا شکر بھی ادا کرنا تھا..موت کے بعد ہونے والے امتحان کی تیاری بھی کرنی تھی.اب میں بوڑھے شیر کی طرح جب شکار کے قابل نہیں رہا تو مجھے زندگی کا اصل مقصد یاد آیا..اور میں موت کا انتظار کرنے لگا...
اللہ تعالی ہمارے گناہ معاف فرمائے ......آمین
No comments:
Post a Comment