اے اہل وفا داد جفا کیوں نہیں دیتے
سوئے ہوئے زخموں کو جگا کیوں نہیں دیتے
اس جشنِ چراغاں سے تو بہتر تھے اندھیرے
ان جهوٹے چراغوں کو بجها کیوں نہیں دیتے
جس میں نہ کوئی رنگ نہ آہنگ نہ خوشبو
تم ایسے گلستاں کو جلا کیوں نہیں دیتے
دیوار کایہ عذر سنا جائے گا کب تک
دیوار اگر ہے تو گرا کیوں نہیں دیتے
چہروں پہ جو جو ڈالےہوئے بیٹھے ہیں نقاب
ان لوگوں کو محفل سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
توبہ کا یہی وقت ہے کیا سوچ رہے ہو
سجدے میں جبینوں کو جهکا کیوں نہیں دیتے
یہ جهوٹے خدا مل کے ڈبو دیں گے سفینہ
تم ہادی برحق کوصدا کیوں نہیں دیتے
پروفیسر اقبال عظیم
No comments:
Post a Comment